فاروق ارگلی
گنیش پارک، رشید مارکیٹ، دہلی
موبائل: 9212166170،
ای میل: [email protected]
ڈاکٹر رضا حیدر صاحب کی زندگی میں لکھا گیا ان کا پسندیدہ مضمون
1969ء میں آفاقی شاعر غالبؔ کی صد سالہ برسی دُنیا بھر میں منائی گئی۔ اس موقع پر خانوادہئ غالبؔ کے جلیل القدر فرزند، ہندوستان کے صدرِ جمہوریہ خلد آشیانی فخر الدین علی احمد نے غالبؔ کی شایانِ شان یادگار ایوانِ غالب (غالب انسٹی ٹیوٹ) قائم کرکے ایسا تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا جو نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری اُردو دُنیا کے لیے سرمایہئ افتخار بن گیا۔ آج غالب انسٹی ٹیوٹ، غالبؔ کی عظمت و رفعت کا عالمی نقیب و ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ اُردو ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت کا عظیم الشان مرکز ہے۔ حکومت ہند کے مالی اشتراک سے قائم ملک کے متعدد ایسے اداروں میں غالبؔ انسٹی ٹیوٹ نمایاں اور عالمی شہرت و ناموری کا حامل ہے۔ غالبؔ انسٹی ٹیوٹ کی مقبولیت اور ناموری میں فخرہند فخرالدین علی احمد مرحوم و مغفور کے بعد ان کی اہلیہ مرحومہ بیگم عابدہ علی احمد صاحبہ اور ان کے بعد ان کے لائق فرزندان کا اُردو زبان و ترجمہ کے تئیں بے پایاں خلوص کارفرما ہے۔ بانی ادارہ کے اخلاص نیت کا یہ اعجاز ہی کہا جائے گا کہ ادارہ کو شروع سے ہی لائق و فائق کارکنوں کی محنت اور اُردو دُنیا کے خواص و عوام کے نیک جذبات اس سے وابستہ رہے۔ گزشتہ 47برسوں میں غالبؔ انسٹی ٹیوٹ نے غالبیات کی تحقیق و ترویج کے ساتھ بڑے پیمانے پر علمی ادبی کتابوں کی اشاعت مقامی، ملکی و بین الاقوامی علمی اجتماعات، سیمینار، مشاعروں اور تہذیبی ثقافتی پروگراموں کے انعقاد اور ادباء و دانشوروں کو وقاری غالب ایوارڈ و انعامات سے نواز کر عالمگیر شہرت و منزلت حاصل کی ہے۔ فی الوقت جناب فخر الدین علی احمد کے صاحبزادے جسٹس بدر درّیز علی احمد اور مسٹر پرویز علی احمد کی قیادت و صدارت، مجلس عاملہ کے پرخلوص معزز عہدے داران و ارکان عالیجناب جسٹس اے ایم احمدی، عالیجناب جسٹس آفتاب علی، ہزہائی نس نواب عماد الدین صاحب آف لوہارو، عالیجناب اخلاق الرحمن قدوائی صاحب اور عالیجناب ایس وائی قریشی جیسی عظیم المرتبت ہستیوں کی پرخلوص سرپرستی میں ادارہ کے لائق سیکریٹر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور جوان سال ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر کی محنت و مساعی سے ادارہ جس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سے پوری اُردو دُنیا واقف ہے۔ برگزیدہ دانشور پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کے تربیت یافتہ نوجوان ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر کی محنت، لیاقت، ادبی بصیرت، خوش انتظامی، خوش خلقی و خوش کلامی نے دور دور سے تشریف لانے والے مشاہیر ادب، بالخصوص دہلی کے اُردو والوں کو متاثر ہی نہیں مسخر کررکھا ہے۔ سنہ 2000ء میں جب بطور ریسرچ آفیسر سیّد رضا حیدر کا تقرر غالب انسٹی ٹیوٹ میں ہوا تھا، تو پہلی ہی ملاقات میں راقم کو ڈگری کی گرمی سے اینٹھے، اکڑے اور بل کھائے ہوئے تازہ بتازہ ’ڈاکٹرانِ ادب‘ سے بہت الگ نظر آئے۔ کم سخنی، منکسر المزاجی، ادب لحاظ، رکھ رکھاؤ اور ہاؤبھاؤ میں تازہ واردان کوچہئ دانش سے یکسر مختلف رضا حیدر نے بہت جلد اُردو کے بڑے بڑوں کے ساتھ ساتھ ہم جیسے چھٹ بھئیوں کو بھی اپنا گرویدہ بنالیا۔ عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ اُردو ادب میں پی ایچ ڈی یافتہ نوجوان کالج، یونیورسٹی یا کسی ادارے میں ملازمت پاجانے کے بعد جلد از جلد شہرت و ناموری کی بلندیوں پر نظر آنے کی جائز ناجائر کوششوں میں جٹ جاتے ہیں، مگر سب نے دیکھا کہ رضا حیدر نے ایک سعادت مند طالب علم کی طرح پندرہ سال غالب انسٹی ٹیوٹ میں گزار دیئے، نام و نمود اور شہرت سے دور بڑے بڑے کام کرڈالے مگر کسی نے ان کے منہ سے ایسی بات نہ سنی جس میں غرور و تعلّی کا شائبہ بھی ہوتا۔ شبانہ روز غالب انسٹی ٹیوٹ کی دیکھ ریکھ، انتظام و انصرام اور آئے دن کی علمی، ادبی، تحقیقی، اشاعتی اور اجتماعی سرگرمیوں میں مشغول رہنے والے رضاحیدر کو اُردو ادب اور تہذیب و ثقافت سے یہ لگاؤ اور ذوق و شوق اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملا ہے۔ ان کا تعلق بہار کے قدیم مردم خیز قصبہ علی نگر پالی (جہان آباد) کے اس قدیم اثنا عشری سادات گھرانے سے ہے جہاں آج بھی علم و ادب اور اُردو تہذیب کے چراغ روشن ہیں۔
علی نگر پالی استاد الشعراء حضرت عطا پالوی کی نسبت سے مشہور ہے لیکن یہ مقام کئی پشتوں سے شعر و ادب کا گہوارہ ہے۔ رضا حیدر کے جد امجد خان بہادر مولوی خیرات علی عربی، فارسی اُردو اور انگریزی کے ماہر تھے۔ وہ ایک نامور بیرسٹر تھے۔ ان کی اعلیٰ سماجی خدمات کے اعتراف خان بہادر کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔ خان بہادر خیرات علی نے پالی کے پرانے اور خام امام باڑے پر پرشکوہ عمارت تعمیر کرائی تھی۔ آپ نے مذہبی امور کی تکمیل کے لیے باقاعدہ ٹرسٹ بھی قائم کیا تھا جس کی تولیت آج بھی ان کی اولاد کے پاس ہے۔ مولوی خیرات علی شاعر بھی تھے اور محب تلخص کرتے تھے۔ ان کے مراثی اور سلام وغیرہ آج بھی ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ مولوی خیرات علی صاحب کے بیٹے خان بہادر سیّد ہادی حسن، سرسیّد سلطان احمد سیّد باقر حسین نے بھی اپنے خاندان کا نام خوب روشن کیا۔ سیّد ہادی حسن نے لندن سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی تھی۔ برطانوی حکومت نے آپ کو سرکاری وکیل مقرر کیا اور ’خان بہادر‘ کا خطاب عطا کیا۔ آپ گیا ڈسٹرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ قدیم قصبہ پالی کے نام کے ساتھ علی نگر کا اضافہ آپ ہی کی تحریک پر ہوا۔ انھوں نے علاقے میں بہت سے تعمیری کام کرائے جن میں سب سے بڑا کارنامہ جہان آباد اور پالی کے درمیان آہنی پل کی تعمیر ہے جس کی وجہ سے سیلاب کے زمانہ میں عوام کو آمد و رفت کی شکل ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ منجھلے بیٹے سیّد باقر حسین بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ چھوٹے صاحبزادے سر سیّد سلطان احمد (1880-1963) کا نام بہار کی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے 1904ء میں بیرسٹری کی تعلیم لندن سے حاصل کی۔ پہلے کلکتہ میں وکالت شروع کی، لیکن 1912ء میں جب بہار نیا صوبہ بنا تو وہ پٹنہ ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے لگے۔ پہلے آپ معاون سرکاری ایڈوکیٹ مقرر ہوئے، پھر اپنی غیرمعمولی ذہانت سے پٹنہ ہائی کورٹ میں جج کے منصب پر فائز ہوئے، لیکن کچھ عرصہ بعد آپ نے ججی سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ وکالت شروع کردی، اس میدان میں انھوں نے بے پناہ شہرت اور کامیابی حاصل کی، پٹنہ میں انھوں نے اپنا عالیشان محل تعمیر کرایا جو سلطان پیلس کے نام سے مشہور ہے۔ 1923ء سے 1930ء تک آپ پٹنہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، آپ نے اس زمانہ میں سائنس کالج، انجینئرنگ کالج اور میڈیکل قائم کیے۔ 1930-31ء میں ہندوستانی مسائل کے حل کے لیے برطانوی حکومت نے لندن میں جو گول میز کانفرنس منعقد کی تھی۔ سرسیّد سلطان احمد ہندوستانی وفد کے ایک رکن تھے۔ 1935ء میں انڈیا ایکٹ پاس ہونے کے بعد جب تمام صوبوں کو خود مختاری دی گئی اور اڑیسہ کو بہار سے علیحدہ کیا گیا، اس وقت دستور کے مطابق ہائی کورٹ میں گورنمنٹ ایڈوکیٹ کی جگہ ایڈوکیٹ جنرل کا عہدہ قائم ہوا۔ سرسیّد سلطان احمد بہار کے پہلے ایڈوکیٹ جنرل بنے۔ آپ کو وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل کا مستقل ممبر نامزد کیا گیا جس کے تحت آپ لاء، انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ کے ممبر بھی رہے۔ سر سیّد سلطان احمد کی اعلیٰ ترین خدمات کے لیے انھیں برطانوی حکومت نے کے سی ایس آئی اور سر کے خطاب سے سرفراز کیا۔ سر سلطان احمد نے تاریخ ساز ملکی اور قومی خدمات انجام دینے کے ساتھ اپنے وطن پالی اور اثنا عشری برادری کی بہت خدمت کی۔
بڑے بھائی سیّد ہادی حسن نے گیا شہر میں اپنی شاندار کوٹھی تعمیر کرائی تھی جس میں اب گیا کا ایک بڑا اسکول ناظرات اکیڈمی قائم ہے۔ ان کے صاحبزادے سیّد رضا حیدر آئی سی ایس ہونے اور حکومت ہند کے لیبر سیکریٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ (یہی ڈاکٹر رضا حیدر کے دادا تھے، انھیں کے نام پر ان کا نام رکھا گیا) دہلی میں دورانِ ملازمت ان کا انتقال ہوا اور دہلی میں ہی سپردِ خاک ہوئے۔
سیّد رضا حیدر کے صاحبزادے سیّد عباس حیدر نے سینٹ زیویر اسکول اور بی این کالج پٹنہ میں تعلیم پائی۔ 1962ء میں ایسٹرن ریلوے میں ملازم ہوئے اور ترقی پاکر اونچے عہدے سے 1996ء میں رٹائر ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ میں رہائش اختیار کی جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے بچوں کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کے خواہشمند تھے۔ اپنے مقصد میں آپ کامیاب ہوئے۔ ان کے بڑے صاحبزادے سیّد نجف حیدر نے سینٹ زیویر پٹنہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پائی۔ تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے بعد وہ اسکالرشپ پر آکسفورڈ گئے جہاں سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ بعدہ فرانس جاکر وہاں کی یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تکمیل کی۔ آپ نے یونیورسٹی آف لندن، اے ایم یو علی گڑھ اور دہلی یونیورسٹی میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ فی الوقت آپ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نئی دہلی میں ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔ سیّد نجف حیدر کا شمار ملک کے مؤقر تاریخ دانوں میں ہوتا ہے، آپ مختلف ملکوں میں منعقد ہونے والی ہسٹری کانفرنسوں میں شرکت کرچکے ہیں۔
سیّد عباس حیدر کے چھوٹے صاحبزادے اپنے دادا کے ہم نام سیّد رضا حیدر یکم جولائی 1971ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم پٹنہ میں ہوئی۔ انھوں نے مگدھ یونیورسٹی گیا سے ایم اے (اُردو) کیا، اس کے بعد دہلی آگئے اور دہلی یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد 2002ء میں ’اُردو شاعری میں تصوف اور روحانی اقدار‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے فوراً بعد غالب انسٹی ٹیوٹ سے بطور ریسرچ آفیسر وابستہ ہوگئے۔ تیرہ سال اس ذمہ داری کو نبھانے کے بعد تین برس قبل وہ اس عظیم ادارہ کے ڈائریکٹر بنائے گئے۔ جس وقت رضا حیدر کو یہ منصب ملا، اس وقت وہ کسی بھی مؤقر اُردو ادارے کے سب سے کم عمر ڈائرکٹر تھے۔
آجکل طلبہ کی معتدبہ تعداد ہر سال پی ایچ ڈی سے سرفراز ہوتی ہے اور ان کے تحقیقی مقالے کتابی صورت میں منظرعام پر آتے ہیں، لیکن ان میں ایک آدھ ہی ایسا ہوتا ہے جسے اس موضوع کی اہم اور مکمل کتاب کا درجہ حاصل ہو، جس پر طالب علم نے تحقیق کی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ رضا حیدر کی کاوش کو اربابِ علم و دانش نے نہایت وقیع کتاب قرار دیا ہے۔ نامور نقاد اور دانشور ڈاکٹر کمال احمد صدیقی مرحوم نے غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے رضا حیدر کے اس تھیسس کی اشاعت پر اپنے پیغام میں جو کچھ تحریر کیا اس سے ڈاکٹر رضا حیدر کی تحقیقی اہمیت کو بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے:
”ایران میں اسلامی فکر کے مستحکم ہوجانے کے بعد شاعروں نے جب خیال کو گھٹتا ہوا محسوس کیا تو تصوف کی طرف رجحان بڑھا، اس آزاد خیالی کے لیے مذہب کے دائرے میں ہی گنجائش پیدا کردی۔ حافظ کی رندی، اور آزاد خیالی اس حد تک قابل قبول ہوئی کہ اس کو مذہبی تقدس تک مل گیا۔ لسان الغیب کے نام سے پہچانے جانے لگے، ان سے زیادہ آزاد خیال شاعر اور اہل ورع کے حلقے میں بھی مقبول شاعر دوسرا نہیں۔ ان کی آزاد خیالی، فلسفیانہ مباحث میں سند کے طور پر بھی پیش کی گئی۔ یہ روایت اُردو شاعری کو بھی ملی۔ ہمارے کلاسیکی شاعروں میں شاید ہی کوئی ہو جس کے یہاں یہ روایت مستحکم نہ ہو۔ خواجہ میردردؔ اور ان کے پیش رو مرزا مظہر جانِ جاناں کی روایت ان کے بعد بھی باقی رہی یہاں تک کہ اقبال کے لیکچروں ‘The Reconstruction of Religious Thought in Islam’ میں بھی ابن عربی، الغزالی کا کسی حد تک تفصیل سے ذکر ہے۔ ڈاکٹررضا حیدر نے تصوف کے موضوع پر تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر کئی صدیوں کا منظرنامہ واضح طور پر سامنے آجاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک روایت یہ بھی ہے کہ تصوف کے ڈانڈے فلسفے میں ملا دیئے جاتے ہیں اور وہ بات جو واضح نہ ہو تصوف اور فلسفے کا اسلوب سمجھی جاتی ہے۔ غالبؔ پر بجنوری کا مضمون اس کی ایک مثال ہے لیکن ڈاکٹر رضا حیدر نے اس روش سے انحراف کیا ہے اور تصوف کو گنجلک بنانے اور پس منظر دونوں واضح کردیئے ہیں۔ اپنی نوعیت کی اُردو میں یہ پہلی کتاب ہے۔ پرخلوص مبارکباد کے مستحق ہیں۔“ (اُردو شاعری میں تصوف اور روحانی اقدار، ص13)
ڈاکٹر رضا حیدر کی اس اہم تحقیقی کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی متوازن رائے کا اظہار اس طرح کیا ہے:
”اُردو شاعری کی تاریخ پر گفتگو کرتے وقت تصوف کا ذکر ہمیشہ آتا ہے کہ اس کے عروج کے دَور میں تصوف پر اعتقاد بھی بہت عام تھا اور شاعری کے سلسلے میں روحانی پہلو کی بحث تو ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے۔ یہ معاملات ہی ایسے ہیں کہ ان سے متعلق متعدد نقطہ ہائے نظر سامنے آچکے ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے۔ بحث ختم ہونے والی نہیں مگر یہی سبب ہے کہ اس کے جتنے ممکن پہلو ہیں انھیں عیاں کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی ہے۔ ہمارے تین بڑے شاعروں میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے مطالعے میں تو تصوف ایک فکری سیاق و سباق بھی بناتا ہے اور ان شاعروں کے اپنے افکار کے سلسلے میں عموماً ایک الگ باب کا بھی مطالعے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں فارسی شاعری کے اثرات اس دور سے آنا شروع ہوئے جب عراق و عرب سے لے کر ایران اور مشرقِ وسطیٰ تک تصوف کا چرچا تھا۔ رومیؔ، سعدیؔ، حافظؔ کا کلام تو ہمارے ہاں کے نصابِ تعلیم میں شامل تھا۔ چنانچہ صرف دانشور اور عالم ہی نہیں عام پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے تھے اور آج تک ہمارے ذہنی رویوں کی ساخت میں اس کے اثرات قائم ہیں۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں ویدانت اور پھر بھکتی تحریک بڑے زورشور سے پھیل رہی تھی۔ اور اس کے اثرات نے ہماری عوامی زندگی کو کچھ اس طرح متاثر کیا تھا کہ آج بھی ہم کبیر، تلسی، میرابائی اور ان جیسے دوسرے لوگوں کے بغیر اپنی تہذیبی تاریخ کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور اس پورے کارواں میں سب سے بڑا نام تو امیرخسرو کا ہے۔ غرض کہ تصوف کے مختلف عناصر ہمارے ہاں کچھ اس طرح سرایت کرگئے ہیں کہ وہ ادب کی جمالیات میں شامل ہوچکا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ اس پر تحقیق کے دروازے کھلے رہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر رضا حیدر نے اس طرف خصوصی توجہ دی۔ انھوں نے بڑی محنت سے اس موضوع پر معلومات حاصل کرنے کے بعد اس کے تناظر میں اُردو شاعری کو دیکھا ہے۔“
کتاب کے فلیپ میں پروفیسر عتیق اللہ (سابق صدر شعبہئ اُردو، دہلی یونیورسٹی) کی عالمانہ وضاحت کے ساتھ اُردو شاعری اور تصوف کی تحلیل و تفسیر بیان کردی ہے وہ ڈاکٹر رضا حیدر کی کاوش اور اس کی علمی قدروقیمت پر دال ہے:”تصوف ایک علم بھی ہے، ایک فلسفہ بھی اور ایک طرزِ حیات بھی، نیز طرزِ عمل بھی۔ نفس انسانی کو اخلاقی رزائل سے پاک کرنے اور روحانی سطح پر اُن صداقتوں کے عرفان کی طرف مائل کرنے سے عبارت ہے جنھیں مابعد الطبعیات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلامی تصوف سے قبل سرّیت کے اس میلان سے مخلوقاتِ عالم بے خبر تھے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ محض سرّیت (مسٹزم) تصوف نہیں ہے۔ سرّیت، تصوف کے علم و عمل کا محض ایک پہلو ہے۔ دوسرے ادیان میں گیان دھیان یا استغراق کے دیگر اصول کارفرما ہیں جسے ہم مراقبہ کہتے ہیں، اُس میں بھی تفکر، محویت، سپردگی اور داخلی غواصی جیسے امور کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ یہی وہ میلانات ہیں جو سرّیت کے دوسرے نظامات کے ساتھ خصوصیت رکھتے ہیں۔ مثلاً نیچرل تھیولوجی کے نزدیک خدا کی معرفت کا ذریعہ مشاہدہئ فطرت اور عقل ہے، اسی بنیاد پر اس مکتب فکر کو دینیاتِ عقلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اُردو شاعری کی تہذیبی روایت میں تصوف کا خاص مقام ہے۔ ہمارے شعرا نے خدا سے محبت کرنا سیکھا ہے اور محبت ہی وہ جذبہ ہے جو ایک طویل ہجر کا منبع بھی ہے اور حزن و یاس کی کیفیات بھی جس کے ساتھ مقدر ہیں۔ وصل میں بھی فصل کا ایک احساس دامن گیر رہتا ہے۔ شاعری میں یہی احساس نفوسِ انسانی کے اشتراک کی طرف مائل رکھتا ہے اور آرزومندی کی چنگاریوں کو کبھی ماند نہیں پڑنے دیتا۔ ڈاکٹر رضا حیدر کو تصوف کے علم سے خاص رغبت ہے۔ علم ان کی ترغیبات میں اوّلیت کا درجہ رکھتا ہے۔ انھوں نے یہ کام برسوں پہلے مکمل کرلیا تھا لیکن اس کے بعد بھی وہ مسلسل تحقیق و جستجو میں سرگرداں رہے ہیں۔ اس تصنیف پر تہہ دل سے مبارکباد، اس نیک خواہش کے ساتھ کہ مطالعے کی تڑپ جو ان کے اندر ہے وہ اُسے قائم و برقرار رکھیں گے۔“
’اُردو شاعری میں تصوف اور روحانی اقدار‘کے بارے میں خود ڈاکٹر رضا حیدر کا کہنا ہے کہ ”یہ موضوع جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے قطعی طور پر اچھوتا ہے اور اس موضوع پر اُردو میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شعری عمل محض مادّی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاعری سائنسی اور تکنیکی ارتقاء کا ردّعمل ہے۔ اس ردّعمل کا نتیجہ اس داخلی بے چینی اور رُوحانی تشنگی میں دیکھا جاسکتا ہے جو ہمارے دَور کی شاعری کا ایک نمایاں شناخت نامہ ہے۔ اپنے محدود مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو کچھ روحانیت کے نام سے پکارا جاتا ہے وہ ایک فن ہے، جس طرح جسمانی ریاضت سے انسان کی طبیعی قوتوں میں ناقابلِ یقین حد تک اضافہ ہوجاتا ہے اسی طرح اس قسم کی ذہنی اور روحانی ریاضت سے انسان کی قوتِ ارادی اور تخیل میں ایسا اضافہ ہوجاتا ہے جس کا عام حالات میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ جسمانی قوت کا مشاہدہ محسوس طور پر ہوسکتا ہے اس لیے کوئی فوق الفطرت تصور نہیں کرتا لیکن قوتِ ارادی غیرمرئی ہوتی ہے اس لیے اس کے مظاہر مافوق الفطرت سجھے جاتے ہیں۔ جو قومیں علمی میدانوں میں آگے بڑھ گئی ہیں وہ اس حقیقت سے واقف ہوگئی ہیں، جہاں سے اسے ماورائی یا مجرد تجربہ خیال کیا جاتا ہے وہاں اسے روحانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ انسانی زندگی کا مقصد فرد کی روحانی ترقی ہے جو مختلف قسم کے مراقبوں اور ریاضتوں سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اس میں اجتماعیت کا تصور ہی نہیں۔ کشف و الہام اور کرامات اسی روحانی ترقی کے مظاہر ہیں۔“
تصوف ایک بحرناپیداکنار موضوع ہے، چونکہ رضا حیدر کو شروع سے ہی اس میں دلچسپی ہے اس لیے ان سے اس راہ پر مزید آگے بڑھنے کی توقع کی جانی چاہیے۔
ڈاکٹر رضا حیدر غالب انسٹی ٹیوٹ کی کئی کتابیں مرتب کرکے شائع کرچکے ہیں، جن میں تدوین و ترتیب کا سلیقہ صاف نظر آتا ہے۔ شادؔ عظیم آبادی کی شخصیت اور شاعری پر 2010ء میں غالب انسٹی ٹیوٹ نے عظیم الشان قومی سیمینار کا انعقاد کیا تھا۔ اس تاریخی سیمینار میں شمیم حنفی، وہاب اشرفی، کلیم عاجزؔ، شارب ردولوی، عتیق اللہ، ابوالکلام قاسمی، شریف حسین قاسمی، کشمیری لعل ذاکر، سرور الہدیٰ، ضیاء الرحمن صدیقی، فرید پربتی، حسن مثنیٰ، خالد علوی اور خود رضا حیدر نے جو مقالات پیش کیے تھے ’شاد عظیم آبادی: حیات و خدمات‘ کے عنوان سے یہ وقیع کتاب مرتب کرتے ہوئے ڈاکٹر رضا حیدر نے یہ جدت کی ہے کہ اس میں کلیم الدین احمد، اختر اورینوی، عطا کاکوی، احمد جمال پاشا،عزیز احمد اور شمس الرحمن فاروقی کے نہایت اہم مقالات اضافی طور پر شامل کردیئے ہیں جن سے شادؔ کی شاعری کو سمجھنا بہت آسان ہوگیا ہے۔
’ہمارا ادبی اور تہذیبی ورثہ‘ کے عنوان سے رضا حیدر کی کتاب بانی غالب انسٹی ٹیوٹ جناب فخر الدین علی احمد کی یاد میں (غالباً 2007) میں پیش کیے جو منتخب تیرہ مقالات کا مجموعہ ہے۔ اسی طرح انھوں نے مجاز سیمینار (2013) میں پیش کیے گئے 18 مقالات کا مجموعہ ’مجاز: حیات و خدمات‘، غالب انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر جناب شاہد ماہلی کے ساتھ مدون کی گئی کتاب ’غالب اور عہد غالب:نئی نسل کی نظر میں‘1999ء میں منعقد سیمینار کے 29منتخب مقالات کا مجموعہ ہے۔ یہ سبھی مقالات دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں (دہلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ) کے ریسرچ اسکالرز نے پیش کیے تھے۔ ’خواجہ میردردؔ: حیات و خدمات‘ کے عنوان سے یہ کتاب میردردؔ پر لکھے گئی مضامین کا انتخاب ہے۔ یہ کتاب انسٹی ٹیوٹ نے اُردو ادبیات کے طلبہ کی آسانی کے لیے خاص طور پر شائع کی ہے۔ انتخاب میں رضا حیدر کی عمق نگاہی واضح ہوتی ہے۔ اب تک غالب انسٹی ٹیوٹ سے رضا حیدر دس سے زائد نہایت اہم کتابیں پیش کرچکے ہیں، جن میں ایک بیحد خاص ’غالبؔ اور عہد غالبؔ‘ بھی ہے۔ یہ بڑے سائر پر رنگین طباعت کے ساتھ ایک باتصویر مرقع ہے جس میں غالبؔ کے عہد کے مشاہیر شعراء کے علاوہ اس عہد کی دہلی کی نایاب تصاویر بھی شامل ہیں۔ کتاب میں شخصیات اور مقامات کا تعارف اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں درج کیا گیا ہے۔ کتاب کا اجراء فرماتے ہوئے نائب صدرِ جمہوریہ ہند جناب محمد حامد انصاری نے رضا حیدر اور غالب انسٹی ٹیوٹ کی اس شاندار پیشکش کی بیحد ستائش کی تھی۔
سیّد رضا حیدر کی ایک اور تحقیقی کتاب ’عزاداری امام حسین اور علی نگر پالی‘ ہے جس میں ان کے مقتدر خاندان کی تاریخ اور نامور ہستیوں کے کوائف کے ساتھ وہاں کے شعراء کے رثائی کلام اور علم و ادب کی سرگرمیوں نیز پالی کی عزاداری کا تذکرہ بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے۔ پالی کی شاندار امام بارگاہ ان کے خاندان کی تولیت میں ہے، اس کی پختہ تعمیر کے سو سال پورے ہونے پر یہ خوبصورت باتصویر کتاب شائع کی گئی ہے۔ پالی اگرچہ چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن وہاں کا محرم پورے بہار میں مشہور ہے جب پورا قصبہ سبز پوش ہوجاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اُردو زبان اور تہذیب کی بقا و ترویج میں عقیدت مندانِ اہلِ بیت اطہار کا حصہ بھی بیحد اہم رہا ہے۔
ڈائریکٹر کا منصب سنبھالنے کے بعد ادارہ کے ترجمان مجلہ ’غالب نامہ‘ کی ادارتی ذمہ داری بھی رضا حیدر سنبھال رہے ہیں۔ رضا حیدر کے علمی کاموں کو جو اعتبار اور وقار حاصل ہوا ہے اس میں جہاں ان کی علمی بصیرت اور ادبی صلاحیت کارفرما ہے وہیں محترم پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی جیسی عبقری شخصیت کی رہنمائی اور سرپرستی کا بھی خاص کردار ہے۔
ڈاکٹر رضا حیدر کا نظریہئ نقد بیحد سلجھا ہوا اور متوازن ہے۔ وہ اب تک متعدد تنقیدی اور تحقیقی نوعیت کے مضامین سپردِ قلم کرچکے ہیں جو ملکی سطح کے سیمیناروں میں پیش کیے گئے ہیں اور ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان مقالات و مضامین کی روشنی میں رضا حیدر کے مثبت تنقیدی رویوں کو سمجھا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہ ادب کے وسیع منظرنامہ پر ان کی نظر خاصی گہری ہے۔ حضرت خواجہ میردردؔ کی صوفیانہ شاعری پر تصنیف کیے گئے ان کے مقالے کے درج ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُردو کی کلاسیکی شاعری اور تصور پر ان کا مطالعہ کس قدر وسیع ہے:
”دردؔ اس دَور میں شاعری کررہے تھے جب مغلیہ سلطنت کا اقتدار عملاً ختم ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کے عقائد انتشار کا شکار تھے۔ علمائے دین فروحی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے۔ نام نہاد صوفیہ بدعتوں میں گرفتار اور شریعت کی پابندی سے غافل تھے۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بحثیں ہر طرف عام تھیں۔ دونوں کے ماننے والے ایک دوسرے سے اُلجھے ہوئے تھے۔ ان بحثوں میں مذہب اسلام کی حقیقی روح ناپید تھی اور ان بحثوں نے اصلی مذہب کی جگہ لے لی۔ حضرت محبوب وحدت الشہود کے بانی تھے لیکن ان کے پیرِطریقت خواجہ باقی باللہ وحدت الوجود کے ماننے والے تھے۔ شیعہ سنی کے اختلافات نے عملی زندگی میں فرقہ بندی کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس صورت میں اگر مسلمان اسی طرح فرقوں میں تقسیم رہتے تو دورِ زوال میں احیائے اسلام کی کوئی صورت پیدا نہیں ہوسکتی تھی۔ اُس دور میں دردؔ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ علم وہ ہے کہ مصلح اور دافع کسل ہو نہ کہ بحث و تکرار میں اضافہ کرے اور دینی امور میں خلل ڈالے۔ بالکل واضح اور اصلاحی تھا:
شیخ کعبہ ہو کے پہنچا ہم کنشتِ دل میں ہو
دردؔ منزل ایک تھی ٹک راہ ہی کا پھیر تھا
خواجہ میر دردؔ نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں کو ملا کر ایک نئی وحدت دینے کی کوشش کی ہے جو ایک قابل قدر فکری اضافہ ہے۔ ابن العربی کا بنیادی نظریہ جو فتوحات میں بیان ہوا ہے، یہ ہے کہ بزرگ و برتر وہ ذات ہے جس نے سب اشیا کو پیدا کیا اور جو خود ان کا جوہراصلی ہے۔ اس عقیدے کی روشنی مں ی تمام عالم کی اشیا اسحقیقت کا محض ایک سایہ ہے جو اُس کے پیچھے مخفی ہے یعنی اُس وجودِ حقیقی کا جوہر اُس شئے کی آخری بنیاد ہے جو تھی یا ہے یا آئندہ ہوگی۔ اسی نقطۂ نظر کی مزید وضاحت یہ کی گئی ہے کہ ابن عربی نے جہاں کائنات کو وجودِ حق کا عکس کہا ہے، وہاں وہ کائنات کو غیرحقیقی نہیں کہتے بلکہ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح سائے کا وجود بغیر اصل کے قائم نہیں رہ سکتا اسی طرح کائنات کا وجود حق کے بغیر ناقابل تصور ہے۔ اس تشریح کی روشنی میں کائنات غیرحقیقی نہیں بلکہ حقیقی ہے مگر موجود بالغیر ہے۔ مجدد الف ثانی وحدت الشہود تک کئی منزلوں سے گزر کر پہنچے تھے۔ میردردؔ نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود پر بحث کرنے کے بعد یہ واضح کیا کہ دونوں کا مقصد ایک ہے اور یہ مقصد طریق محمدی میں ایک ہوگیا ہے اور یہی توحید مطلق ہے۔ تصوف میں دردؔ کا ایک اضافہ اور ہے، سفر در وطن نقشبندی سلسلے کی ایک مروّجہ اصطلاح ہے۔ میردردؔ نے وطن در سفر کا اضافہ کیا۔ دردؔ نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ سفر میں وطن کا مقام ورائے النفس و آفاق کا اشارہ ہے اور جو من اللہ فی اللہ کی مرتبے کو پہنچ کر حاصل ہوتا ہے۔
صوفیا در وطن سفر بکنند
درد الدر سفر مرا وطن است
دردؔ نے اپنے اُردو دیوان میں بھی اس تصور کو کئی جگہ شعر میں باندھا ہے:
مانندِ فلک دل متوطن ہے سفر کا
معلوم نہیں اس کا ارادہ ہے کدھر کا
………………
اے بے خبر تو آپ سے غافل نہ بیٹھ رہ
جوں شعلہ یاں سفر ہے ہمیشہ وطن کے بیچ
دردؔ نے جس طرح مضامین معرفت و سلوک و تصوف کو شاعری میں سمویا ہے اس کی مثال اُردو شاعری میں کم سے کم نہیں مل سکتی۔ ان کا اُردو کلام حافظؔ کے دیوان کی طرح سراپا انتخاب ہی نہیں بلکہ بادہئ معرفت سے بھی اُسی طرح لبریز ہے۔ سچے صوفی کی طرح انھوں نے شعر کو ذریعہئ عزت و شہرت اور وسیلہئ معاش نہیں بنایا نہ انھوں نے کبھی کسی کی ہجو کی نہ قصیدہ خوانی۔“ (خواجہ میردردؔ: حیات و خدمات، مرتبہ رضا حیدر، ص155-56)
ڈاکٹر رضا حیدر الیکٹرانک میڈیا میں بھی خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ای ٹی وی اور دوردرشن کے متعدد علمی ادبی پروگراموں میں اینکرنگ کرچکے ہیں، آل انڈیا ریڈیو سے 75 سے زائد پروگرام نشر ہوچکے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے لیے انھوں نے کئی دستاویزی فلمیں بنائی ہیں۔ ان کا خصوصی کارنامہ تیری ایپی سوڈ پر مبنی سیریل ’کتابوں کی دنیا‘ ہے، ہر ایپی سوڈ میں انھوں نے اُردو کی ایک اہم کتاب پر کسی اہم علمی شخصیت کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ کتابوں پر تبصرے کا یہ انداز شاید اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آیا، جس میں کتاب اور صاحب کتاب پوری طرح ناظرین کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس سیریل کو دوردرشن نے کمیشنڈ کیا تھا۔ اگر دوردرشن سرکاری اور سیاسی مضمرات کا پابند نہ ہوتا اور اُردو چینل اُردو زبان و ادب کی ترویج و فروغ کے تئیں پرخلوص ہوتا تو ایسا پروگرام سالہا سال تک دِکھایا جاتا اور ناظرین کی دلچسپی کبھی ختم نہ ہوتی۔
سیّد رضا حیدر کے بزرگوں نے تعلیم و تعلّم کی جو شمع مدتوں پہلے روشن کی تھی وہ آج بھی آب و تاب کے ساتھ روشن ہے۔ ان کے بڑے بھائی پروفیسر نجف حیدر جے این یو میں تاریخ کے استاذ ہیں۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر آفرینہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں، منجھلے بھائی سیّد حسین حیدر اے ایم یو میں فاصلاتی تعلیم کے سپرنٹنڈنٹ ہیں، ان کی اہلیہ ڈاکٹر بدرجہاں بھی مسلم یونیورسٹی میں معلمہ ہیں۔ رضا حیدر کی شادی جونپور کے ایک معزز خاندان میں ہوئی ہے۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر سلطنت صاحبہ بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ رضا حیدر کی دو بہنیں ہیں، دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ایک بہن سیّدہ کاظمہ حیدر اپنے شوہر سیّد حسن عسکری زیدی کے ہمراہ شکاگو میں ہیں، محترمہ امریکہ کی اہم ذاکرہ اور عالمہ تسلیم کی جاتی ہیں۔ دوسری بہن کنیز فاطمہ کی شادی لندن کے سیّد علی ارشد موسوی سے ہوئی ہے۔ کنیز فاطمہ لندن کے ایک سرکاری اسکول میں پڑھا رہی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اس خاندان پر ’ایں خامہ ہمہ آفتاب است‘ کی کہاوت پوری طرح صادق آتی ہے۔ ڈاکٹر رضا حیدر کی ذہانت اور اندازِ فکر وعمل کو دیکھتے ہوئے یہ توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں کہ وہ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اُردو زبان اور تہذیب کے فروغ و ترویج کے لیے بہتر خدمات انجام دیں گے بلکہ ادب کے شعبے میں اپنی مخصوص شناخت قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوں گے۔