ازتحریر ۔وسیم احمد گنائی
ساکنہ ۔گنڈجہانگیر سوناواری
غور سے اگر تنہائی لفظ کی طرف دھیان دیا جائے ۔تو یہ لفظ باقی موجودہ لغات اور بدون سمجھا جاتا ہے ۔ڈکشنری معنی کے اعتبار سے یہ لفظ کافی خیز اور مغز مانا جاتا ہے ۔تنہائی کے مختلف رنگ اور پہلو دیدمان ہو چکے ہیں ۔آدم سے لیکر آج تک تنہائی مختلف بے شمار پیغمبروں، بزرگان؛ اور اولیاکراموں نے اس چیز کو پسند کیا ہے ۔کیونکہ تنہائی میں رہ کر ایک انسان وہ مقام حاصل کرتا ہے ۔جو برائیوں کو چھوڈ کر نیکیوں کی طرف لے جاتا ہے ۔
تنہائی انسان کو وہ مقام عطا کرتا ہے ۔جس کی وجہ سے اس کی دنیا بدل جاتی ہے ۔اس کے سوچ وچار میں ہر طرف بلند خیالات جنم لیتے ہیں ۔تنہائی میں رہ کر کر انسان چاہیے وہ مرد ہو یا عورت ،جوان یا بزرگ ایک الگ دنیا حاصل کر کے رب کے قریب جاتا ہے ۔وہ دنیا کے مشغول سے دور رہ کر اپنی زندگی میں نیا مقام اور نئی سوچ کے آگے بڑھتا ہے ۔اگر چہ دنیا کے لوگوں کی نظروں میں وہ مشہور نہیں ہوتا ہے ۔لیکن اللہ کے دربار میں اس نے وہ مقام حاصل کیا ہوتا ہے ۔جو باقی لوگوں سے سماج میں رہ کر حاصل نہیں کیا ہوتا ہے ۔اگر انسان کو اپنے گناہوں سے دور رہنا ہے ۔تو اس کو تنہائی میں رہ کر توبہ استغفار استعمال کرنا چاہیے ۔
فقیروں، قلندروں، درویشوں اور مومن لوگوں نے آج تک تنہائی میں رہ کر اگر چہ ایک طرف اس کے بہت سارے فائدوں کے ساتھ ساتھ اس کے بہت سارے نقصانات بھی ہیں ۔تنہائی میں رہ کر سماج کے لوگوں سے بچھڑ جاتا ہے ۔وہ دنیا کے تلخ حقیقتوں کو سمجھنے میں قاصر رہ جاتا ہے ۔مہزہبی روایتوں سماجی الجھنوں، حقیقی معاملوں اور دنیا کے روایتوں سے وہ بے خبر رہتا ہے ۔وہ تنہائی میں رہ کر پریشانیوں، الجھنوں اور سوچ میں مگن رہتا ہے ۔اس کی صرف اپنی ہی فکر رہتی ہے ۔دوسرے لوگوں کے بارے میں اس کو غم میں رہنے کے لیے وقت میسر نہیں ہوتا ہے ۔سماجی خدمت اور خدمت خلق کے بارے میں اس کو کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی ہے ۔تنہائی اس پر عمر بھر کے لیے چھا جاتی ہے ۔
گھر والے آس پڑوس میں رہنے والے لوگ راشتہ دار اور دوست اس سے ناراض رہتے ہیں ۔کیونکہ اس کو ان طبقوں کے ساتھ رہنے کے لیے وقت دستیاب نہیں ہوتا ہے ۔اگر غور سے دیکھا جائے ۔تنہائی میں رہنے والے لوگ اگر چہ دنیا کے تعلقوں سے دور رہتے ہیں ۔لیکن سوچنے کی صلاحیت اور فکر کی انگیزی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے وہ تنہائی میں رہ کے وہ علم اور چالاکی حاصل کر لیتا ہے ۔جو دوسرے لوگ نہیں کر پاتے ہیں ۔
تنہائی انسان قوتوں اور کلوشوں کو مکمل کرتا ہے ۔تنہائی صبر اور برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔یہ انسان کو اعلی مقام عطا کر کے کی برائیوں کو ختم کردیتا ہے ۔کیونکہ تنہائی میں رہ کر وہ غیبت بغز اور حسد سے پاک رہتا ہے ۔لڑائی جھکڈوں ،فتنوں اور چاپلوسی سے دور رہتا ہے ۔
تنہائی انسان کو حقیقی محبت کی طرف لے جاتا ہے ۔جس طرح ایک پروانہ اپنے آپ کو شمح کی آگ سے آہستہ آہستہ جلا لیتا ہے ۔اس کی جل نے کی وجہ صرف تنہائی میں اکیلے پن اور حقیقی محبت کا اثر ہوتا ہے ۔جو اثر اس کو اپنے آگوش میں لے جاتا ہے ۔اسی طرح ایک انسان جو تنہائی سے بے حد قریب آچآچکا ہوتا ہے ۔اس کی وجہ سماج کی بداخلاقی بد گوئی اور ایک دوسرے کی نفرت ، اور برائیوں کی طرف جانا ۔ان سے یہ تنہا انسان پاک ہوتا ہے ۔انہوں نے اپنی راتے تنہائی کی حقیقتوں میں گزار دی ہوتی ہیں ۔جب یہ زیادہ تنہائی کی گہرایوں میں جاتا ہے ۔تب ان کی آنکھوں سے رونے کے وہ قطرے ان کے آنکھوں کے نالوں سے گزار جاتے ہیں ۔اور ایک آہ سی نکل آتی ہے ۔وہ آہ سچی محبت کی ہوتی ہے ۔
جو محبت اللہ اور پیارے نبی کی یاد میں ہوتی ہے ۔اس تنہا انسان کے سارے پل انکھوں کے سامنے نظر آنے لگتے ہیں ۔اور یہ ہر لمحہ تنہائی سے بڑی خوبصورتی سے گفتگوں کر نے کی کوشش میں ہوتا ہے ۔اس تنہا رات کے رنگ بدلنے لگتے ہیں ۔چاند بھی نکلا ہوتا ہے ۔اور آسمان پر بادل گردش کرتے نظر آتے ہیں ۔منزلیہ اب بھی وہی ہوتی ہیں اور کچھ راستے بدلیہ سے ہوتے ہیں ۔