فکریات الطاف جمیل ندوی
کچھ دن پہلے صبح سحری پر ہی سنا کہ ہندوستان کے مایہ ناز صاحب قلم مولانا وحید الدین خان کا انتقال ہوگیا ہے۔ ہندوستان میں پچھلے کچھ وقت سے مسلسل اہل علم حضرات کا انتقال ہورہا ہے جو کہ ایک غمناک بات ہے پر آج مولانا کا انتقال جو ہوا یہ ایک عہد کا خاتمہ ہے مولانا کا انتقال برصغیر کے ایک وسیع حلقے کے لئے کسی کرب سے کم نہیں
مولانا مرحوم قلم کے بادشاہ تھے جہاں چاہا اس کا رخ موڑ دیا اور حق یہ کہ مولانا اپنی بات رکھتے تھے اور پوری کوشش کرتے کہ اپنی کسی بھی تحریر میں رنگ بھرنے کے لئے علمی دلائل کے ساتھ ساتھ مثالیں دے دے کر بات سمجھانے اور اس میں وزن پیدا کرنے کی سعی کرتے رہتے تھے
مجھے مولانا کی تین باتوں نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے
انہوں نے اپنی بات رکھ کر کبھی مخالفت پر توجہ دے کر اپنا وقت ضائع کرنے کی کوشش نہ کی خواہ ان کی مخالفت میں کتنی بھی شدت کیوں نہ ہوتی یہ اسلوب پہلے پہل سید مودودی رحمہ اللہ کے ہاں بھی پایا جاتا ہے کہ مخالفت کے طوفان میں غوطہ لگانے کے بجائے اپنے کام پر توجہ دینا یہ کمال کا کام ہے یہی سبب ہے کہ یہ لوگ علمی دنیا پر اپنی چھاپ چھوڑ سکے
مولانا کی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ مسلسل علم سے اور قلم سے جڑے رہے اور اپنے ان نظریات و افکار پر یکسوئی سے کام کرتے رہے جن کے وہ تا زمانہ موجد مانے جائیں گئے جہاں اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے
مولانا کی تیسری خوبی یہ تھی کہ انہوں نے دعوت و اصلاح کے کام کو اوراق پر منتقل کرکے کتابی صورت دے دی جو پہلے افراد کرتے تھے اب یہی کام کتابوں نے کرنا شروع کیا
مولانا اپنی بات رکھنے میں یدطولی رکھتے تھے ان کا مطالعہ وسیع تھا جس کا ثبوت ان کی علمی کاوشیں ہیں ان کی کتب کی تعداد دوسو کے آس پاس ہے اور ان کا معروف علمی کام الرسالہ کی صورت میں ہر ماہ اپنے قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ جاتا
مولانا جمہور علماء سے ہٹ کر ہی رہے انہوں نے کچھ عقائد و اسلامی نظریات پر اس قدر غلو اور زیادتی کی کہ ہندوستان کے کے علماء ان سے متنفر رہے یہی نہیں بلکہ دنیا کے چوٹی کے اہل علم نے مسئلہ فلسطین پر ان کی رائے سے اختلاف کیا اور ان کی رائے کو غلط ثابت کیا انہوں نے اپنے نظریات کو دوام بخشنے کے لئے اصحاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم خاص کر عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پر بھی ہاتھ صاف کئے اور ان کی ذات پر تنقید کرتے کرتے بہت دور نکل گئے تقریبا بیس سال پہلے ان کی ایک تحریر ارسالہ میں آئی تھی جہاد کے سلسلے میں جہاں انہوں نے یہ کام انجام دیا تھا نزول عیسی علیہ السلام قیامت مہدی وغیرہ جمہور کے نزدیک متفق افکار سے انہوں نے فرار اختیار کیا
ان میں بھی اک خامی تھی کہ یہ ہمیشہ ایک نظریہ پر کھڑے نہیں رہ سکے جیسے کبھی یہ جماعت سے وابستہ تھے جہاں انہیں پہچھان ملی پر متنفر ہوگئے اور پھر تمام خوبیاں ان کی چھوڑ کر تنقید کرنے بیٹھ گئے ایسے ہی انہوں نے بھی بہت بار روئے تبدیل کئے
موصوف حریت فکر کے ہمیشہ ناقد ہی نہیں بلکہ مخالف رہے انہوں نے جب بھی کسی جگہ امت مسلمہ کے بارے میں سنا کہ وہ مصائب کا شکار ہے وہ زیادتی کی شکار ہے تو انہوں نے اکثر امت مسلمہ میں ہی خامیوں کو تلاش کرکے امت مسلمہ کو غلط ٹھہرایا
مولانا سے نئی پود سے ایک بڑی تعداد متاثر ہے جو اپنے نظریات پر قائم ہیں مولانا نے ایک اور کام بھی بہت خوب انجام دیا ہے کہ قرآن کریم کو مفت تقسیم کرنے کی سعی کی ان کے متبعین بھی اس کام کو بڑھ چڑھ کر انجام دے رہے ہیں
مولانا سے اختلاف کرنا کوئی کفر نہیں ہے پر اختلاف برائے اختلاف ہی ہو تذلیل و تحقیر کا عنصر جوں ہی غالب آجائے تو سمجھ لیں یہ اختلاف رائے کا اظہار نہیں ہے بلکہ یہ اپنی ضد اور انا کے سبب بدی کی زبان کو ترویج دینے کی سعی ہے
حق تعالی ان کی نیکیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کی سئیات سے درگزر فرمائے .