وہ ہوائیں اور وہ بُلبُل کا چہکنا باغ میں
برگِ لالہ َرشکِ لالہ کا دھمکنا باغ میں
کام کرتے گام پیدل چھالے ہاتھوں پاؤں میں
کتنے دلکش اور حسیں تھے یہ مناظر گاؤں میں
یادِ ماضی بیل گاڑی گُڑ سواری یاد ہے
لڑجھگڑنا ساتھ رہنا بے قراری یادہے
کتنا بزدل کتنا اَڑیل میرا وہ ہمسایہ تھا
وقتِ آخر وقتِ اوّل میرا وہ ہمسایہ تھا
دال سبزی مُٹھ مٹر،نعمت خدا یا تحفہ تھا
ہر کسی کی تھی خبر، نعمت خدا یا تحفہ تھا
لوگ مُفلس اور گدا تھے،ڈاکہ چوری عام تھی
مال و زر کی فکر نا تھی،آہ و زاری عام تھی
خیر و مشکل کی گھڑی ہو،لوگ رہتے ساتھ میں
رشتہ داری سب نبھاتے،شادیاں تھیں ذات میں
کتنا دل کش تھا سماں پیڑوں پہ جولا جھولنا
یادِ ماضی اور بچپن کا وہ پھلنا پھولنا
ساس خاوند اور بہو کتنی محبّت کرتے تھے
اپنے اپنے بال و پَر سے وہ سخاوت کرتے تھے
عید،ہولی یا دیوالی لوگ مل کر کھاتے تھے
کون مسلم،کون ہندو،کون سکِھ سب بھاتے تھے
چور، ڈاکو،نان بھائی گاؤں کی پہچان تھی
ساتھ دکھ سُکھ بانٹ لیتے گاؤں کی یہ شان تھی
شہر کی آلودگی آنے لگی ہے گاؤں میں
کہہ دو یاورؔ آگ سی جلنے لگی ہے گاؤں میں
……………………………………
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ، ہندوارہ،راجوار
موبائل؛6005929160