تحریر: الطاف جمیل ندوی
آج میں ایک ایسی شخصیت کو خراج تحسین پیش کر رہا ہوں جن کی علمی کاوشوں اور دعاؤں نے عاجز کو قلم تھامنے کے لائق بنایا، جن کی دعائیں کام آرہی ہیں۔
زندگی انسان کو ملی ہی ہے جہد مسلسل کے لئے لیکن اس زندگی میں علم و دانش کا ہونا ضروری ہے جس میں والدین کا کردار سب سے اعلی و ارفع ہے۔اسلامی علوم کی آبیاری ہو کہ اخلاقی تربیت ہر صورت انسان اپنے مشفق و مہربان والدین کے سہارے ہی یہ کٹھن مرحلہ طے کرسکتا ہے یہی انسان کو تربیت کر کے اخلاقیات و علوم سے بہر ور کرکے خوبصورت بنا سکتے ہیں یا بنا تربیت کے وحشت کا نمونہ۔
میں وہ حسین و خوبصورت لہجہ، وہ قرآنی اسرار و رموز،وہ شغف بیان نہیں کرسکتا جو ان کے قلب و جگر میں سمایا ہوا تھا۔بلند قد و قامت، وہ جسم پر خوبصورت لباس، وہ پُر نور چہرہ ،وہ بھیگی آنکھیں اور وہ ہر لمحہ رب سے راز و نیاز کی باتیں کرنے والی زبان رکھنے والا ،میری مراد ہے اس یتیم و غریب شخص کی جو گرچہ دور افتادہ علاقے میں پیدا ہوا لیکن اپنی محنت و دیانت سے ایک منفرد مقام پر پہنچا۔ وہ میرے والد تھے۔
محمد ممتاز مسعودی رحمہ اللہ ولد محمد اصغر مسعودی رفیع آباد خاندانِ علمی سے وابستہ تھے۔ اپنے ہی علاقہ کے ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کرنے کے ساتھ ساتھ علومِ اسلامی کی پیاس اپنے چچا ،جو کہ اپنے زمانے کے کہنہ مشق اساتذہ میں سے تھے اور جنہوں نے لاہور سے فضیلت پائی تھی،، کے یہاں بجھائی۔انہوں نے اپنے بتیجھےکو ابتدائی اسباق تفسیر الحدیث فقہ کے اسباق پڑھائے ۔
یہ ایسے انسان گزرے ہیں جن کی قدر ان کی موت کے بعد بھی نہ ہوسکی۔جس منزل کے راہی تھے اسی منزل کے رفیقوں نے ان کی تعزیت تک نہیں کی
اپنے چچا کے یہاں سے فارغ ہوکر والد صاحب مختلف مدارس میں،جن میں مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور قابلِ ذکر ہے، پڑھے۔یہاں سے انہوں نے فضیلت حاصل کی۔ علومِ دین کے ساتھ ساتھ انہیں بچپن سے ہی جذبۂ حُریت بھی اپنے چچا سے ملا تھا جس کے سبب اپنے علاقہ میں آتے ہی وہ تحریکِ اسلامی کے ساتھ جُڑ گئے۔جب مختلف آزادی پسند جماعتوں نے مل کر الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ لیا تو موصوف اپنے علاقہ میں انتہائی سرگرمی کے ساتھ جماعت اسلامی کے اُمیدوار کو کامیاب بنانے کے لئے دوڑ دھوپ میں مشغول ہو گئے۔
خواہشِ رزق نے چھینامیرا بچپن مجھ سے
موصوف ایک شعلہ بیان مقرر احیاءِ توحید و سنت کے داعی اور مواعظِ حسنہ سے دل و جگر کو موہ لینے والے خطیب تھے جن کے رگ و پے میں اُمتِ مسلمہ کا درد و کرب موجود تھا۔شھید مفتی جمال الدین صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ والہانہ محبت و لگاؤ رکھتے تھے،اکثر و بیشتر ان سے اپنے تعلق پر فخر محسوس کرتے ایک طرف جذبہ حُریت سے سرشار تو دوسری طرف اپنی انفرادی زندگی میں تسبیح و تہلیل و تہجد کے پابند۔ اپنی نمازوں میں تڑپ تڑپ کر آنسو بہانے والے ایک زاہد و متقی شخصیت کا نمونہ۔
تحریکِ آزادی کے پُر زور حامی و داعی شرک،بدعات و خرافات سے متنفر بزورِ علمی دلائل کے ان کا قلع قمع کرنے والے اپنی علمی دولت کو ترقی دینے کی غرض سے اپنی پرسنل لائبریری میں مختلف کتابیں جمع کرتے رہتے جہاں کسی خاص نظریہ کی تخصیص نہ تھی بلکہ ہر نظریہ کی کُتب موجود رہتی تھیں۔ افسوس کہ انکا یہ خزانہ اُن کے انتقال کے بعد ضائع ہوگیا کیوں کہ ان کتابوں کو کوئی سنبھالنے والا ہی نہ تھا۔
کیا کہئے کہ اس فکر نے ان کے لئے اپنوں کو بھی غیر بنادیا
انتہائی ملنسار و خوش مزاج …اپنے رفیقوں سے ملتے تو کوئی گمان بھی نہ کرسکتا کہ یہ علم و ادب کے کوئی شہسوار ہیں بلکہ ایسا محسوس ہوتا کہ عام سے مذاق کرنے والے کوئی معمولی شخص ہیں جو اپنی محبت بھری گفتگو سے سحر طاری کرنے کا فن جانتے ہیں۔ جیسا کہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ تھوڑی سی لیاقت کیا آگئی کہ خود پر ہی اترانے لگے اور قدم زمین پر ٹھہرتے ہی نہیں۔لیکن ان کا مزاج مختلف تھا اپنوں کی دلجوئی کرنا اور دوسروں کی ہمدری کرنا ان کا امتیازی وصف رہا زندگی بھر سنتِ نبوی علیہ السلام سے والہانہ محبت رہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت تھی یہاں تک کہ ان کے ہونٹوں پر اکثر نعتیہ اشعار رہتے جنہیں بڑے ہی خوبصورت لہجے میں پڑھتے تھے۔ کبھی کبھار تو ایسا ہوتا کہ اشعار پڑھتے پڑھتے آنسوؤں سے پورا چہرہ تر ہوجاتا اور آواز رند جاتی۔ اکثر یاس و حسرت سے کہتے کہ کاش میرا نصیب ایسا ہوتا کہ شہہِ ابرار صل اللہ علیہ وسلم کے در پے حاضری نصیب ہوتی مگر غربت و افلاس کی مار اپنی تمام عمر سہتے رہے یہاں تک کہ انکی حسرت پوری نہ ہوئی۔
نہ جانے کتنے لوگ ہیں جنہیں والد صاحب نے راہِ حق پر گامزن ہونے کی ترغیب دی ہو یا قرآنی علوم سے آراستہ کیا ہوگا۔ اپنی عمر کے آخری دنوں میں بڑے دل آزردہ رہتے تھے اور کفِ افسوس ملتے رہتے کہ ہمارے لخت جگر تو راہ پر چل پڑے ہیں لیکن انہیں کوئی علمی شخصیت میسر ہوتی تاکہ ان کا واسطہ علم و فضل سے ہوتا اور ان کی خامیاں مٹائی جا سکتیں۔ کیا کہئے کہ اس فکر نے ان کے لئے اپنوں کو بھی غیر بنادیا۔
جب تحریکِ آزادی کے لئے لوگ گھر چھوڑنے لگے تو موصوف مختلف عارضوں میں مبتلاء ہونے کے باوجود گھر چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔ ان کے بھائی نے ان کو خبر بھی نہ ہونے دی کہ وہ چلے گئے اور موصوف صرف سرد آہ بھر کر رہ گئے کہ ہائے میری قسمت یہاں بھی مجھ سے دغا کر گئی۔
آخر وہ مصائب و مشکلات ان پر بھی وارد ہوئیں جن کا شکار ہر کشمیری باشندہ ہوا اور جس کی تفصیلات کے تذکرہ کی یہاں چنداں ضرورت نہیں ہے۔ہائے وہ اسلامی حُلیہ کے چلتا پھرتا نمونہ جو اس کرب کو سہہ نہ سکے۔علم و فن کے یہ مینارہ 20 نومبر 1992 کو اپنے مالکِ حقیقی سے یوں جا ملے کہ پوری رات آنسو بہاتے ہوئے گلو گیر انداز میں بستر پر رو رو کر اللہ کے حضور دعائیں مانگتے اور درودِ شریف و آیاتِ قرآنی کی تلاوت کرتے رہے۔شدتِ درد بڑھ جانے پر صبح جب اسپتال پہنچائے گئے تو اپنے برادرِ اصغر سے کہا ’’مجھے اپنے دیارِ غیر گئے بھائی کی بہت یاد آتی ہے وہ میرے بیٹے کی طرح ہے اسے کہنا قربان ہوجائے‘‘۔اسی کے ساتھ کچھ دعائین کیں اور کلمہ طیبہ کا ورد بڑے ہی دل سوز انداز میں کیا، بھائی نے خاموش ہونے پر جنجھوڑا تو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے۔اپنے پیچھے اپنے نابالغ بچون کو چھوڑا جو بہت ہی کم عمر تھے لیکن رب الکریم کی رحمتوں کے سہارے اب ان کی اولاد بھی اہلِ علم کی صحبت میں رہ رہی ہے جو سعادت سے کم نہیں ہے۔
’’مجھے اپنے دیارِ غیر گئے بھائی کی بہت یاد آتی ہے وہ میرے بیٹے کی طرح ہے اسے کہنا قربان ہوجائے.
زمانہ افسوس کرے بھی تو کیا کرے ایسی محفل کا جہاں انسانوں کی قدر و منزلت ان کی موت کے بعد کی جاتی ہے لیکن یہ ایسے انسان گزرے ہیں جن کی قدر ان کی موت کے بعد بھی نہ ہوسکی۔جس منزل کے راہی تھے اسی منزل کے رفیقوں نے ان کی تعزیت تک نہیں کی …ان کے بچے کس کرب و الم کا شکار ہوئے وہ ایک الگ موضوع ہے۔اُن کا وہ لطیفانہ طرزِ تکلم اب تک جگر کو چھلنی کرتا ہے، تحریکِ آزادیٔ کشمیر سے متعلق حقائق پر مبنی انکی ایک تحریر کو شائع کرانے کی میری کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔