غلام نبی کمار
ایڈیٹر ”پنج آب“
7006738304
انجمن ترقی اردو ہند کا ہفتہ وار رسالہ”ہماری زبان“ (نئی دہلی)، ماہ نامہ ”عالمی زبان“(بھوپال) از سیفی سرونجی کے بعد اب خالص ادبی رسالہ ”دبستانِ ہمالہ“ پورے آب و تاب کے ساتھ سر زمین پیر پنچال سے اردو زبان و ادب کے شیدائی و پروردہ، شاعر و ادیب فاروق مضطر کی سرپرستی اور ڈاکٹر محمد سلیم وانی، محمد مسلم وانی اور طارق علی میر کی ادارت میں معیاری و معلومات افزا مشمولات کے ساتھ منصہ شہود پر آچکا ہے۔ جب کوئی رنگ برنگی چیز سامنے آجاتی ہے تو دل اس کی خوشبو سے ویسے ہی شرابور ہوتا ہے جیسے کسی باغ کے مختلف النوع ورنگا رنگ خوشبودار پھول ایک انسان کے قلب کو تازگی عطا کرتے ہیں۔”دبستانِ ہمالہ“ کے پہلے شمارے میں شامل تقریباًسبھی مضامین اس کی اہمیت کو دوبالا کرتے ہیں۔
اس رسالے کی آمد کا سال 2021 ہے اور مارچ یعنی موسم بہار میں اس کا پہلا شمارہ تنویر احمد(ریسرچ اسکالر،شعبہئ اردو،دہلی یونی ورسٹی)کے توسط سے باصرہ نواز ہوا۔ گذشتہ برسوں کے دوران اردو کی کئی معروف و بلند قامت شخصیات اس دنیا سے رخصت ہوئیں جن کی گراں قدر ادبی خدمات سے دامن کبھی بھی چھڑایا نہیں جا سکتا۔ پروفیسر ظہور الدین، پروفیسر حامدی کاشمیری، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی، ماسٹر عبد العزیز وانی، عرش صہبائی، ودیا رتن عاصی، شہباز راجوروی، فدا راجوروی، عبدالشکور ملک، ڈاکٹر فاروق مغل وغیرہ وہ معروف اور معتبر ادبی و سماجی شخصیات ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی اور عقل و دانش کے انمول سرمائے کو اردو زبان و ادب کے لیے وقف کیا۔ اس سے بڑھ کر مال و متاع ایک ادیب، شاعر یا قلم کار کے پاس اور ہوہی کیا ہو سکتا ہے۔ ان ہی عظیم و معتبر شخصیتوں کو ”دبستانِ ہمالہ“ کے پہلے شمارے میں یادکیا گیا ہے۔ ”دبستانِ ہمالہ“ کے اس سوونیئر کے سرنامے پر تہذیبی، ثقافتی، علمی، ادبی، تعلیمی اور تعمیری مجلہ لکھا ہوا ہے گویا اسے ملک، تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کی میراث قرار دیا جا سکتا ہے۔اظہار تعزیت کے طور پر ”دبستانِ ہمالہ“ کے سرورق پر فوت شدہ معروف شخصیات کی تصویریں اور ان کے نیچے تعارفی جملے بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجلے کا تعزیتی نوٹ ملاحظہ ہو:
”صد افسوس کہ یہ نادر شخصیات سالِ رواں کے آس پاس اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئیں اور ہم سب کو بے حد سوگوار کر گئیں اور اپنے اپنے دائرہ عمل میں ایسے خلاء پیدا کر گئیں، جن کے پُر ہونے میں ہم سب کو بہت دیر تک انتظار کرنا ہوگا۔“
”دبستانِ ہمالہ“کا پہلاتحریر کردہ مضمون سابق صدر شعبہ اردو،کشمیر یونی ورسٹی پروفیسر قدوس جاوید کاہے۔ مضمون کا عنوان ”بھائی فاروقی: ایسا کہاں سے لاؤں تجھ سا کہوں جسے“ ہے جس میں پروفیسر موصوف نے پدم شری شمس الرحمٰن فاروقی کو ان کے تنقیدی نظریات کی روشنی میں دیکھا ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں پروفیسر گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے ادبی رشتے،ان کے نقطہئ نظر،کام کرنے کے طریقوں اورمراسم کا ذکرکیا ہے اور ایسی بہت سی باتوں سے پردہ ہٹایا ہے جن سے دونوں ماہرین و ناقدین کے درمیان آپسی اختلافات ورنجش کی خبر پھیلی تھی۔ پروفیسر قدوس جاوید نے کلاسیکی ناقدین اور عصری تنقیدی منظرنامے کی رو سے شمس الرحمٰن فاروقی کے مقام و مرتبہ کا تعین کرنے کی ایک بہترین کوشش کی ہے۔ فاروقی صاحب کے تعلق سے پروفیسرقدوس جاویدکا یہ مضمون بہت جامع اور معنی آفرین کہا جا سکتا ہے جس میں دونوں سے متعلق سنی سنائی باتوں کو نہیں بلکہ اس کے برعکس ان کے ادبی تجربات و مشاہدات اور تنقیدی افکار کو منظرِ عام پرلانے کی ایک بہترین سعیئ بلیغ ہوئی ہے۔شمارے کے دوسرے صفحے پر شمس الرحمٰن فاروقی سے متعلق مشاہیر ادب کی آرا کو شامل گیا ہے۔ ان مشاہیر میں خلیل الرحمٰن اعظمی، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، انتظار حسین، محمد حسن عسکری، علی سردار جعفری، عرفان صدیقی، ظفر اقبال، بلراج کومل، نظام صدیقی، فضیل جعفری کے نام قابل ذکر ہیں۔
شمارے کا دوسرا گوشہ جموں و کشمیرکے مایہ ناز و ممتاز شاعر و ادیب و فکشن نگار پروفیسر حامدی کاشمیری کی شخصیت اور خدمات کا احاطہ کرتاہے۔ دو صفحات پر مشتمل اس گوشے میں بہت سا مواد ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ پہلے صفحہ پر حامدی کاشمیری کی سوانح کوائف کے علاوہ سید سجاد ظہیر، شمس الرحمٰن فاروقی، گوپی چند نارنگ، وزیر آغا، ڈاکٹر جمیل جالبی، مرزا حامد بیگ، محمد یوسف ٹینگ، ڈاکٹر شکیل الرحمان، مظہر امام، وہاب اشرفی، رفیق راز، فاروق مضطر اور جاوید انور جیسے اعلیٰ پایہ ناقدین کے تعارفی تاثرات کو یکجا کر کے شائع کیا گیا ہے جن سے مذکورہ مشاہیر سے ان کے تعلقات و مراسم کا پتہ چلتا ہے اور موصوف کی ادبی قدوقامت اور بین الاقوامی شہرت کا بھی بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اس صفحے پر سلیم سالک کا ایک مختصر مضمون بھی شامل ہوا ہے۔ اس کے دوسرے صفحے پرحامدی کاشمیری کی اکتشافی تنقید کی شعریات پر ایک مکالمہ شائع کیا گیا ہے جس میں نذیر احمد ملک اور مجید مضمر کی حامدی کاشمیری سے گفتگو کو اہمیت دی گئی ہے۔ ”اکتشافی تنقید“ حامدی کاشمیری کا اپنا خود کا نظریہ تھا جس کے تناظر میں مذکورہ گفتگو یادگار لمحات میں ریکارڈ ہوئی ہے۔ اس گفتگو میں حامدی کاشمیری ایک جگہ لکھتے ہیں کہ””میرے نزدیک معانی کی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ ہر قاری اپنے طور پر معانی کا ادراک کرتا ہے جو اس کی غیر قطعیت پر دلالت کرتا ہے۔“اخیر میں حامدی کاشمیری کا مختصرنمونہ کلام اور نمونہ نثر کو جگہ دی گئی ہے۔
”دبستانِ ہمالہ“کے پہلے شمارے کا تیسرا گوشہ سماجی معمار، ماہر تعلیم اور ہر دل عزیز شخصیت و استاد عبد العزیز وانی کی شخصیت اور خدمات پر مشتمل ہے۔ یہ گوشہ بھی دو صفحات پر محیط ہے۔ آغاز میں خورشید بسمل کا منظوم خراج عقیدت جگہ پایا ہے اور مرحوم وانی صاحب کا اجمالی تعارف طارق علی میر کا لکھا ہوا ہے جس میں انھوں نے ماسٹر عبد العزیز وانی سے متعلق بہت اہم معلومات سے قارئین کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے موصوف استاد کی ہمہ جہت علمی و ادبی اور سماجی شخصیت کا خوبصورت خاکہ کھینچا ہے۔علاوہ ازیں خطہ پیر پنچال میں ان کی علمی وتعلیمی کاوشوں نیز موصوف کی سماجی جدوجہد کو قابل قدر الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔اس مضمون سے ہمالین ایجوکیشن مشن راجوری کے سرپرستِ اعلیٰ کی حیثیت سے ماسٹر عبد العزیز وانی کی چار دہائیوں کی خدمات سے بھی روشناس ہونے کا موقع فراہم ہوتاہے۔ شمارے میں احمد شناس کا ایک طویل مضمون اور نثار راہی کے تاثرات بھی قابل مطالعہ اور موصوف کی متنوع شخصیت کی پرتوں کو منظر عام پر لانے میں بہت حدتک کامیاب ہوتے ہیں۔ اس گوشے میں میر عبدالسلام کا تحریر کردہ ایک مضمون ‘”ماسٹر وانی:ایک تحریک،ایک تاریخ“ خلوص اور عقیدت سے پُر ہے۔ مزید برآں ایم این قریشی اور اسد اللہ وانی کے تاثرات ماسٹر عبد العزیز وانی کی پُر خلوص شخصیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
شمارے کا چوتھا گوشہ پروفیسر ظہور الدین پر مشتمل ہے۔ یہ اور دیگر گوشے ایک ایک صفحے پر مشتمل ہیں۔ پروفیسر ظہور الدین کے گوشے میں سوانحی کوائف کے علاوہ وید بھسین کا مضمون ”پروفیسر ظہور الدین: ایک روشن دماغ تھا نہ رہا“ بھی شامل ہے۔ نیز پروفیسر آر-این-شاستری، فاروق نازکی، ظفر اقبال منہاس کے تاثرات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عرش صہبائی کے گوشے میں موصوف مرحوم کی سوانح کوائف، پروفیسر اسد اللہ وانی کا ”عرش صہبائی__ایک منفرد شاعر“اور اس کے علاوہ قدوس جاوید کا ایک مضمون ”عرش صہبائی___ایک قادرالکلام شاعر“ گوشے کو وقار بخشتا ہے۔آخر میں عرش صہبائی کا نمونہ کلام اوران سے متعلق مشہور دانشور اور نقاد عبدالقادر سروری کا تاثر بھی شامل ہے۔
اس شمارے میں شہباز راجوروی اور فدا راجوروی، ودیا رتن عاصی، عبدالشکور ملک اور فاروق مغل پر مشتمل گوشے بھی ان کی شخصیت اور ادبی خدمات کو بڑے احسن طریقے سے نمایاں کرتے ہیں۔ آخر کے دو صفحے مذکورہ مرحومین کی یادگار تصویروں سے مزین ہیں جوان کی زندگی کے مختلف اور خوبصورت لمحات میں لی گئی ہیں۔اس شمارے کی کامیابی میں ”دبستانِ ہمالہ“کے سرپرست فاروق مضطر کا بھرپور ہاتھ ہے جو نہ خود ایک ادیب،شاعر، نثر نگاراور صحافی کے طور پر مشہور ہیں بلکہ علمی و ادبی اور سماجی معاملات میں بھی موصوف ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔خطہئ پیر پنچال میں ان کی زندگی کے مختلف شعبہ ہائے جات میں سرگرمیاں اپنی مثال آپ ہیں۔