رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
دلشادہ کئی دنوں سے بستر مرگ پر تھی ۔ ڈاکٹروں کے معائنے اور مختلف ٹیسٹ کروانے کے بعد پتہ چلا کہ وہ کئی عوارض میں مبتلا تھی ۔ ہر کوئی دوست احباب اور رشتہ دار جو خبر پرسی کےلئے آتا تھا اپنی اپنی رائے کے مطابق دلشادہ اور اسکے شوہر کو مشورہ دیتا تھا کہ کیسے بیماری سے مقابلہ کیا جاسکے ۔۔۔۔۔۔
دلشادہ ہسپتال میں ایڑمٹ تھی تو انکے سب رشتے دار اور دوست احباب ہسپتال کے وارڑ نمبر بارہ میں موجود تھے جہاں دلشادہ کا آپریشن دو دن بعد ہونا تھا ۔ دلشادہ کے دو بیٹوں کے بارے میں سب لوگ ہسپتال وارڑ میں بول رہے تھے ۔۔۔۔۔
” وہ دونوں بھائی اپنی ماں کے بارے میں بالکل بےفکر ہیں ۔ اپنی ماں کی خراب حالات دیکھ کر بھی وہ کوئی خاطر خواہ اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں ۔ دلشادہ نے بے شمار قربانیاں دے کر دونوں بیٹوں کی کفالت کی ہیں ۔ لیکن وہ دونوں احسان فراموش نظر آرہے ہیں ۔۔۔۔۔
وارڑ کا انچارج ڈاکٹر جب مریضوں کا معائنہ کررہا تھا تو وارڑ نمبر بارہ پہ ایڑمٹ دلشادہ کے معائنے کے دوران ڈاکٹر نصیر نے دلشادہ کو ایک گردہ تبدیل کرنے کی صلاح دی تاکہ اسکی جان کسی طریقے سے بچائی جائے ۔ ڈاکٹروں نے دلشادہ کے سبھی تیمارداروں سے کہا کہ دلشادہ کو ایک گردہ دیا جائے تاکہ ایک قیمتی جان بچائی جائے ۔ سبھی دوست احباب اور رشتےدار ایک ایک کرکے ہسپتال سے باہر چلے گئے ۔۔۔۔
دونوں بھائی اپنی ماں کو گردہ دینے کے لئے تیار ہوئے ۔ بڑا بھائی چھوٹے سے کہہ رہا ہے کہ میں ہی گردہ پیش کروں گا بلکہ چھوٹا بھائی اپنی ماں کو گردہ دینے کے لئے بیتاب نظر آرہا ہے ۔ ڈاکٹر نصیر سے دونوں بھائی اپنا ایک گردہ آپریشن کے ذریعے نکال دینے کی پرخلوص درخوست کررہے ہیں ۔
دونوں بھائیوں نے ڈاکٹر کو اتنا مجبور کیا کہ اس نے قرعہ اندازی کے ذریعے گردہ نکالنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔
سبھی لوگ جو ابھی تک دلشادہ کے بیٹوں کو اولاد نافرمان گردانتے تھے ، انکی درد دیکھ کر ڈھنگ رہ گئے ۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔