از تحریر اعجاز بابا
نائدکھئے سوناواری
انڈرگریجوٹ طالب، ڈگری کالج سوپور
[email protected]
زندگی اتنی مشکل نہیں ہے جتنا مشکل خواہشات نے بنا رکھا ہے ہم ضرورت اور خواہش میں فرق کو سمجھے تو زندگی کچھ حد تک سہل سکتی ہے ہمارا زیادہ تر دوڑ خواہشاتِ کے پیچھے رہتی ہے ورنہ ضرورت کچھ کم سے پورا ہوسکتا ہے ,لیکن یہ سب کچھ جو ہم میں راسخ ہوچکا ہے یہ بھی بلا وجہ نہیں ہے سرمایہ دارانہ نظامِ جو پورا کے پورا استحصال اور برائ پر کھڑا ہے میں سے ایک بڑی برائی یہ بھی ہے کہ وہ انسان کے اندر خواہشات کو پروان چڑھاتا ہے تو پھر انسان ضروریات سے ہٹ کر خواہشات کی تکمیل میں لگ جاتا ہے جو ایک نہ ختم ہونے والا حرس ہے جو انسان کو اندھا اور حیوان صفت بنا کر تکمیل خواہش میں جو بھی خائل آئے تو ہٹا دیتا ہے اور معاشرے میں ایسی تفریق جنم لیتی ہے جن میں ایک طبقہ خواہشات کے نہ ختم ہونے والے سفر میں انسانیت کے استحصال میں لگا رہتا ہے اور دوسرا طبقہ ضروریات سے محروم ہوکر تذلیل کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ایک بنیادی زمہ داری عوام کی ضروریات انکی دہلیز پر باہم پہنچانے کی لگاتی ہے اور ہمیں خواہشات کے پیروکاری سے بچنے کی سختی سے تلقین کرتا ہے.
سرمایہ دارانہ نظام اکثریتی طبقے کے بلا تفریق رنگ، نسل، مزہب، جنس ،صحت اور عمر کے دشمن ہے اس دشمن کے ہوتے ہوئے انسانیت کیلئے ترقی ممکن نہیں اور نہ ازادی ممکن ہے اور نہ خوشی اور ازادی سے جینا ممکن ہے جب تک ہم اس دشمن کی پہچان نہیں کریں گے ہمیں ہر وقت خطرہ درپیش رہے گا اور یہ خطرہ بھوک، غربت، بیروزگاری ،بدامنی، جنگ، دہشت گردی ہر قسم کے شکل میں موجود رہے گا جس کا شکار لاکھوں کروڑوں انسان ہوتے ہیں ,یہ نہ مرد دیکھتے ہیں اور نہ عورت، نہ جوان دیکھتے ہیں اور نہ بوڑھے، نہ صحت مند دیکھتے ہیں اور نہ بیمار، نہ بچے دیکھتے ہیں اور نہ بڑے ،یتیم ،مسکین، غریب دیکھتے ہیں چاہے جو بھی راستے میں رکاوٹ ہوں یا مفادات میں رخنہ ہو یا ان سے مفادات حاصل کرنے ہوں سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار صرف سرمایہ ہے ,اگر کوئی مفادات کے اڑے اے تو ان کے خلاف بم، بموں کی ماں، بموں کے باپ حتٰی کہ ایٹم بم سے بھی گریز نہیں کرتے چاہے اس کا لقمہ اجل لاکھوں کروڑوں انسان کیوں نہ ہوں ,یہ دشمن چند مخصوص لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ یہ دشمن اپنے مفادات کے لئے اکثریتی طبقے کے خلاف استعمال کرتے ہیں اس کے ساتھ چند خاندان وابستہ ہیں جو اکثریتی طبقے کے خلاف مخصوص لوگوں کے ایک ٹولے کا نگران ہے اور یہ ایسا دشمن ہے جو اپ کے وسائل رزق پر قابض ہیں ،اپ کے معیشت پر قابض ہے اپ کے سیاست پر قابض ہے اور یہ سب کچھ اقلیت کے لئے اکثریت کے خلاف کرتے ہیں اپ کو نہ تعلیم کا حق دیتے ہیں، نہ علاج کا معیاری حق دیتے ہیں اور نہ اعلیٰ اور کام کی تعلیم دیتے ہیں نہ امن دیتے ہیں اور نہ اپ کو چھت فراہم کرتے ہیں اور نہ شادی میں اسانی پیدا کرتے ہیں
یہ ایسا دشمن ہے جو ہمیں بھی اپس میں لڑاتے ہیں کبھی مزہب کی بنیاد پر، کبھی نسل اور زبان کی بنیاد پر، کبھی مرد اور عورتوں کو اپسمیں لڑاتے ہیں اور پھر عورتوں کو بھی اپس میں لڑاتے ہیں، یہ دشمن ہم میں تفریق ڈال کر سیکولر، لبرل اور مزہب کے بنیاد پر بھی لڑاتے ہیں غریب اگر نالے کے گندے پانی میں چھونپڑی بھی بنائے تو سرکاری مشینری اس کو مسمار کرنے پہنچ جاتی ہے، جبکہ سرمایادار اگر پوش علاقے میں سرکاری زمین بھی دو نمبر طریقے سے خریدے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.
صرف محنت ہی سے نتائج نہیں ملتے بلکہ درست محنت سے نتائج ملا کرتے ہیں اسلئے محنت سے اہم درست محنت کا شعور حاصل کرنا ہے, ہماری قوم جدوجہد اور محنت سے غافل نہیں ہے لیکن کمی اگر ہے تو درست محنت کی ہے ۔۔۔قومیں زوال کیطرف جاتی بھی تب ہیں جب وہ وقت کے تقاضے اور انکے ساتھ چلنے کےلیے خود کو تیار نہ کرتیں۔۔۔۔اور زوال سے نکلتے بھی تب ہیں جب وہ وقت کے تقاضوں اور اسی کے مطابق درست جدوجہد کو سمجھے اور انکے مطابق تیاری کرے ,اب بھی ہم اس زوال سے نکل سکتے ہیں بشرطیکہ ہم درست سمت اور پر جدوجہد کا راستہ اپنائے۔۔۔