از تحریر اعجاز بابا
نائدکھئے سوناواری
انڈرگریجوٹ طالب علم، ڈگری کالج سوپور
رابطہ 7889988513
دنیا میں کسی جانور ،کسی مخلوق نے انسان کا اتنا شکار نہیں کیا، جتنا انسان نے انسان کا کیا ہے۔ انسان نے انسان کو جنگوں میں مارا، رشتوں میں مارا، محبت سے مارا، دھوکے سے مارا۔ یہ انسان اتنے رنگ بدلتا ہے کہ کوئی مخلوق نہیں بدلتی اور یہ اپنی ہی نسل کا شکار کرنا پسند کرتاہے۔ کوئی دوست کے روپ میں دشمن ہے، کوئی مسافر کے بھیس میں لٹیرا ہے۔ جو سچائی کی قسم کھا رہاہے، وہ سچ سے ہی دور ہے، جسے ایمانداری کا غرور ہے، وہ برتری کے احساس کا غلام ہے۔ انسان نے سب بن کر رہنا سیکھا، ایک انسان ہی بن کر رہنا اس کے لیے مشکل رہا۔
انسان بہت جلد باز ہے پہلے تو کسی چیز کے پیچھے دوڑ لگاتا ہے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اُسے پانے کی اتنی جستجو کرتا ہے بس اپنے مقصد کو پورا کرنے میں لگا ہوا ہوتا ہے اور پھر ہر کوشش کے بعد بھی وہ سب کچھ جو وہ چاہتا ہے تو وہ ایک حسرت کی کھائی میں گر جاتا ہے پھر اُس کی وہ ایک خواہش پوری نہ ہونے کی وجہ سے سے وہ اتنا ٹوٹ جاتا ہے کہ اُسے پھر کسی شے میں دلچسپی نہیں ہوتی ہر چیز سے دل اچاٹ ہو جاتا ہے پھر اُس کسی بھی شے کو پانے کی چاہت نہیں رہتی پھر وہ کچھ بھی حاصل کرنا نہیں چاہتا کیونکہ ہم سے اگر کچھ ہماری قیمتی چیز چھینی جائے اور پھر پوری کائنات آگے رکھی جائے پھر بھی ہماری قیمتی چیز کا نعم البدل نہیں ہوتی کل کائنات، پھر تو بسس ہمارا دل صرف ایک ہی چیز کی رٹ لگائے بیٹھ جاتا ہے مگر کہاں ممکن ہے کہ جو دل چاہے وہ مل جائے،اور دل تو دل ہے سمجھتا ہی نہیں بس جو چاہتا ہے وہ چاہتا ہے بعض اوقات انسان کافی چیزوں کی حسرتیں دل میں لیے دفن ہوجاتا ہے نامکمل حسرتیں پل پل تکلیف دیتی ہیں اور حسرت پوری نہ ہونے کے بعد پھر دوبارہ دل نہ تو فرمائشیں کرتا ہے اور نہ کسی چیز کی جستجو کرتا ہے بس پھر دل مر جاتا ہے اور مرے ہوئے کہاں کوئی فرمائش کرتے ہیں انہیں تو جس طرح رکھا جائے خاموشی سے وہیں ڈھل جاتے ہیں ناکام حسرت دل میں پھیلے ایک ناسور کی طرح ہوتی ہیں کتنا بھی وقت گزر جاۓ پھر بھی وہ ایک نوکیلی کیل کی طرح جسم میں چبھتی ہے اور ہر پل تکلیف کو تازہ رکھتی ہے.ڈوبنے کی حسرت ہے، کنارے کا کیا کروں۔
ذہنی اذیت وہ واحد اذیت ہے جو انسان کا چین و سکون،نیند و آرام ،کھانا پینا،سونا جاگنا سب چھین لیتی ہے بے بسی اور کرب کے ایک ایسے پاتال میں لے جاتی ہے جہاں نہ رہنا ممکن ہوتا ہے نہ باہر آپانا انسان کی ذات قطرہ قطرہ اس اذیت کے پاتال میں ڈوبتی چلی جاتی ہے میری نظر میں جسمانی اذیت سہل ہے پر ذہنی اذیت ہر چیز کی موت ہے خدرا کبھی کسی کو ذہنی اذیت مت دیں ,یہ سلوپوائزن کی مانند ہے دھیرے دھیرے زندگی نگل جاتی ہے
میں نے اپنی زندگی میں یہ سیکھا ہے ۔کہ ہر چیز عارضی ہے چاہیے وہ محبت ہو دولت ہو خواہشات ہوں یا ضروریات ہوں کسی چیز کے ساتھ دل لگی نہیں کرنا ورنہ ساری زندگی روتے رہ جاؤ گے ,ہر چیز کے آنے پر اللّہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور جانے پر بھی غم نہ کرو وہ تمہارے حق میں بہتر نہیں تھا اس لیے تم سے دور کر دیا گیا,جب بھی پریشان ہو تو آسمان کی طرف دیکھو , سمائل کرو اور کہو اچھا تو اس میں بھی میرے لیے کوئی نا کوئی حکمت ہوگی۔خوش ہو جاؤ عنقریب تمہیں بہترین سے نواز دیا جائے گا آپ بھی بتائے آپ نے کیا سیکھا؟