خالق کائنات نے انسانوں کی رہائش اور رزق کیلئے زمین کی نوعیت الگ الگ رکھی ہے اسی طرح بے زبانوں کو چرنے کیلئے مخصوص اراضی رکھی ہے جس کو عام اصطلاح میں کاہچرائی کہتے ہیں لیکن سماج کے خود غرض افرادکاہچرائی کو جاگیر سمجھ کر قبضہ کرنے میں کوئی فروگذاشت نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ کاہچرائی پرقبضہ کرنا شرعی اور قانونی طور سخت جرم قرار دیا گیا ہے اور واضح کیا جاتا ہے کہ کاہچرائی چرواہوں کا حق ہے انسانوں کا اس مخصوص زمین کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔
یہاں تک عبادت گاہیں بشمول مساجد،درسگاہ تعمیر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔لیکن ان تمام احکامات اور پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر ود غرض افراد بلا ججک کے اس خط اراضی پر قبضہ کرتے ہیں۔انتظامی سطح پرمحکمہ مال کی نگرانی میں دوسری قسم کی زمینوں کاہچرائی ہوتی ہے لیکن محکمہ مال اس حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ بساواقات محکمہ ہذاکے افسران واہلکاراں کی پشت پناہی سے ہی اس پر قبضہ کیا جارہا ہے اورباضابطہ طور پٹواری ریکارڈ میں ان افراد کے نام زمین کی جاتی ہے۔جبکہ علمائے کرام بھی کاہچرائی کی شرعی اعتباریت کے متعلق زیادہ تر جانکاری فراہم کرنے کی طرف توجہ مبذول نہیں کرتے ہیں اور سماج کے ذمہ دار بھی کاہچرائی پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کبھی بھی آواز بلند نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو مال غنیمت سمجھ کر کھلی ڈھیل دی جاتی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کاہچرائی کے تاریخی اور قانونی پس منظر میں یہ واضح ہے کہ کاہچرائی پر کسی بھی صورت میں کوئی بھی شخص قبضہ نہیں کرسکتا ہے۔اگر چہ لارنس بندوبست میں کئی ترامیم ہوئی ہیں تاہم چرواہوں اور مویشیوں کیلئے مخصوص اراضی کاہچرائی پر قبضہ غیرقانونی ہے۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آجکل لوگ خود غرضی سے کاہچرائی پر قبضہ کرکے باغات بناتے ہیں یا تعمیراتی ڈھانچے کھڑا کرتے ہیں۔حالانکہ اس کیلئے واضح قانون ہے کہ تعمیراتی ڈھانچوں کو اگرچہ مہندم نہ کیا جائے تو قبضہ کرنے والے شخص سے کاہچرائی کے قریب ہی ملکیتی اراضی وصول کی جائے اور اگرکسی نے کاہچرائی کو کاشت میں لایاہوگا تو اس پر کاشت کرنے کی اجازت نہ دی جائے اوراگر کسی شخص نے اثررسوخ یا طاقت کے بل پر مکان یا کوئی اہم تعمیراتی ڈھانچہ کھڑا کیا ہوگا تو لینڈ ایکٹ میں ترامیم کے مطابق صرف دس مرلہ زمین پر اس کو قابض رہنے کی اجازت ہوگی۔
باقی پر قبضہ ہٹاناقانونی طور لازمی ہے۔یہاں بات قابل ذکر ہے کہ کاہچرائی بے زبانوں کیلئے مخصوص ہے اس پر کسی بھی طرح قبضہ جائز نہیں ہے۔لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ایک طرف لوگوں نے کاہچرائی پر قبضہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تو دوسری طرف سرکارنے بھی اس مخصوص پر قبضہ کرکے مختلف دفاتر ککی عمارتیں قائم کی ہیں۔اس صورتحال میں محکمہ مال کے افسران کے ساتھ ساتھ سماج کے ذی حس افراد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کاہچرائی کو بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔شرعی نکتہ نظر کے حوالے سے کاہچرائی پر کوئی شخص قبضہ نہیں کرسکے گا کیونکہ یہ زمین مخصوص ہے۔
مویشیوں کو گھاس چرانے کیلئے مختص ہے۔ لوگ کاہچرائی کو وقتی طوراجتماعی ضرورت کیلئے استعمال کرسکتے ہیں البتہ کوئی شخص مذکورہ اراضی پر کسی بھی صورت میں قبضہ نہیں کرسکتا ہے۔شرعی طور کاہچرائی پر قبضہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کاہچرائی کو چراہوں کیلئے مخصوص اور مختص زمین تصور کرکے اس پر قابض ہوئے افراد اپنا قبضہ چھوردیں اور اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر تحریک چلائی جائے تاکہ بے زبانوں کی زمین انسانوں کا مقدر نہ بنیں۔