افسانہ ۔۔۔۔ خوشی
رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ
اپنا نام کامیاب امیدواروں کی فہرست میں دیکھ کر وسیم نہایت ہی خوش تھا ۔ اب اسکو سرکاری نوکری بھی ملی ، اچھے عہدے پر بھی فائض ہو رہا ہے اور جس دفتر میں اسکو کام کرنا ہے وہاں ہر قسم کی سہولیات ملازمین کے لئے ہمیشہ میسر رہتی ہے ۔ قسمت والوں کو ہی ایسے عہدے اور دفاتر نصیب ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔
وسیم اپنی تنگدستی اور مفلسی کی پرانی داستان اب بجائے کسی کو سنائے یکدم بھول رہا ہے کیونکہ اسکے جسم میں اب نئی جان آگئی ۔۔۔۔
اپنے دوستوں اور دیگر لڑکوں کو جو اسے پڑھائی کے دوران ہم جماعتی تھے کو وسیم نے شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں دعوت پر مدعو کیا ہے ۔ وسیم کے سب دوست اور دیگر لڑکے دعوت میں شرکت کرتے ہوئے خوشیاں منارہے ہیں ۔ سب دوست اسکو نئی گاڑی ، شہر میں ہی ایک خوبصورت مکان خریدنے اور شادی کسی بڑے آدمی کی بیٹی سے رچانے کی صلاح دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔
پاس ہی دو اور آدمی ہوٹل کے اسی کمرے میں کھانا کھاتے ہوئے کچھ باتیں کررہے تھے ۔ وسیم انکی گفتگو بغور سن رہا تھا ۔۔۔۔۔
”” پتہ نہیں سجاد کو کس کی نظر لگ گئی ہے ۔ سرکاری نوکری ملنے کے صرف چار سال بعد ہی اسکو اتنی بڑی مصیبت جھیلنی پڑی ۔ بتایا جاتا ہے کہ آ ج وہ کوما میں چلا گیا ہے ۔ روزانہ دوائی ٹیسٹ وغیرہ کا خرچہ چالیس پنتالیس ہزار کا آتا ہے۔ گردے خراب ، دل میں پیسمیکر لگایا ہوا اور اب بون میرو ٹرانسپلانٹ کرنے کے لئے بھی بیرون ملک جانا ہے ۔ چار سال سے کمائی ہوئی رقم اور زمین جائداد خرید کر بھی بیماری سے مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے ۔ پتہ نہیں کن گناہوں کی سزا مل رہی ہے سجاد کو ۔'”
جب وسیم اپنے دوستوں کے سامنے یہ سنی ہوئی گفتگو بیان کرتا ہے تو انکی آنکھیں آنسوؤں سے نم ہوئیں ۔ وہ سب آدھا ہی کھانا کھا کر ہوٹل کی گیلیری میں چلے گئے اور کہنے لگے ۔۔۔
"””” ہمیشہ انسان کو خوشی کے موقعے پر بھی اللہ کو یاد رکھنا چاہیے اور غم ، مصیبت اور پریشانیوں سے نجات کےلئے ہمیشہ اللہ سے دعا کرتے رہنا کیونکہ غم ، مصیبت اور پریشانیاں انسان کو کسی بھی وقت گھیر لیتی ہیں ۔۔۔
افسانچہ — شرمندگی
مقبول اپنی تنگدستی اور غریبی کی وجہ سے ہر کسی کے سامنے بات کرنے میں اکثر شرم محسوس کرتا تھا ۔ جہاں بھی پانچ چھہ آدمیوں کا مجموعہ ہوتا تھا مقبول وہاں سے چوری چوری چلا جاتا تاکہ ان سے بات کرنی نہ پڑے ۔ جب بھی مسجد سے گھر یا بازار سے گھر آتا تھا تو دائیں بائیں نظر دوڑائے بغیر ہی سیدھے گھر چلا جاتا تھا ۔ جب کسی رشتے دار یا ہمسایہ کی شادی یا تعزیتی تقریب ہوتی تھی تو مقبول وہاں جانے سے بھی کتراتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
مقبول کے دو بیٹے جنہوں نے ریلوے محکمے میں انٹرویو دیا تھا ، دونوں سلیکٹ ہوئے ۔ تمام ہمسایہ اور رشتے دار مقبول کے گھر مبارکبادی کےلئے آتے ہیں ۔ اب مقبول کی تنگدستی اور غریبی یکدم دور ہوئی ۔ مقبول کے رویے اور وطیرے میں بھی تبدیلی آگئی ۔۔۔۔۔۔۔
تمام ہمسایوں ، رشتےداروں اور مسجد میں باقی نمازیوں کے ساتھ بلاججک کے بات کرنے لگا ۔ شادی اور تعزیتی تقریبوں میں خود شرکت کرنے کے علاوہ وہاں موجود لوگوں کے سامنے خطاب بھی دینے لگا۔ اقبال (رح) ، غالب اور دیگر دانشوروں کے اقوال سے ہمیشہ اپنی بات شروع کرتا تھا ۔ لوگوں کی نظروں میں اب مقبول کی ایک الگ شخصیت ہے ۔۔۔۔۔۔۔
محلے کی مسجد کمیٹی اور گاؤں کی اوقاف کمیٹی نے اب مقبول کو لوگوں کی مرضی پر دونوں کمیٹیوں کا صدر بنانے کا منصوبہ بنایا۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے