تحریر: خشبو بنت جاوید
طالبہ معلم کھنہ بل انت ناگ
میری داستانِ حسرت، وہ سُنا سُنا کے روئے
میرے آزمانے والے، مجھے آزما کے روئے۔
جو سُنائی انجمن میں، شبِ غم کی آپ بیتی
کئی رو کے مُسکرائے، کئی مُسکرا کے روئے۔
میں اکثر سوچتی تھی کہ جب ﷲتعالی کسی انسان پر اُسکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو پھر اکثر ایسے لمحات ہماری زیست میں کیوں آتے ہیں جب ہم تھک کر بِکھر جاتے ہے، جب ہمارا وجود ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے، جب ہمارا قلب اذیت کے داغوں سے پُر ہوجاتا ہے، جب ہماری آنکھیں اُمید کی بینائی سے محروم ہو جاتی ہے، جب دُنیا کی تمام رنگینیاں ماند پڑ جاتی ہے، اور جب ہمیں اپنا آپ ایک اضافی بوجھ جیسا لگنے لگتا ہے۔
وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ادراک ہوا کہ ﷲتعالی اپنے خاص بندوں کو مُختص کرنے کیلئے اُن پر آزمائش کی چادر ڈال دیتا ہے۔ وہ اپنے مُخلص بندوں کو الگ کر لینا چاہتا ہے۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اُسکی محبت میں صبر کے آخری پیمانے تک جا پہنچتا ہے۔ کون دل چیرنے والی اذیت میں بھی اُسکی محبت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتا ہے۔ کون اُسکی چاہت میں سب کچھ قُربان کر دیتا ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کی چاہت کیلئے اپنی چاہت کو قربان کر دیتے ہے ﷲ اُنہیں اُن کی تکلیفوں، اذیتوں اور قربانیوں کے بدلے ایسا بہترین صِلہ عطا فرماتا ہے کہ وہ ساری زندگی اُسکے احسان کی شُکرگُزاری میں گُزار دیتے ہے۔ پھر جتنی بڑی آزمائش، اُتنا ہی بڑا صِلہ۔ کیونکہ ﷲتعالی اپنے اوپر کوئی احسان نہیں رکھتا۔ کُندن بننے کیلئے جلنا تو پڑتا ہے۔
کبھی کبھی ہماری ذات کی عدم تکمیل کا احساس ہمیں اندر سے کاٹنے لگتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہماری حقیقی ذات اندر ہی اندر گُھل رہی ہے، کہیں بھٹک رہی ہے۔ بلکل کسی عُریاں لباس، میل کُچیل گیسوؤں کے، پا شکستہ انسان کی طرح۔ جسکے قدم بے قراری میں اَن دیکھے راستوں پر گھسیٹتے چلے جا رہے ہیں۔ نگاہ میں منزل تو کوئی نہیں بس سراب جیسا کوئی دھوکہ ہے۔ ایسے وقت میں زندگی کی بےثباتی ہمیں اس قدر بے چین کر دیتی ہے کہ اُسکی وحدت کو برقرار رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ ہماری ذات انتشار کا شکار ہو جاتی ہے اور پھر یوں لگتا ہے جیسے جان کا خاتمہ ہی آخری راستہ بچا ہو۔
چند سانسیں ہزار نعمت ہے
میں تو قائل ہوں اِن دلائل کا۔
زیست مُشکل ضرور ہے لیکن
خودکشی حل نہیں مسائل کا۔
ایسی درماندگی و بےحوصلگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک انسان خود میں زندگی کی سچائیوں کو قبول کرنے کا حوصلہ نہیں پاتا۔ کبھی وہ سامنے موجود ہے لیکن نظر سے پوشیدہ۔ اصل اور دھوکے، سچ اور جھوٹ کا فرق معلوم نہیں رہتا اور پھر جب اُن سچائیوں سے مفر ناممکن ہو جائے تو انسان اُن کا جرأت مندی سے سامنا کرنے کی بجائے کم حوصلگی و کمزوری کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔
زندگی سے بیزاری کی ایک بڑی وجہ خواہشات اور توقعات کا پورا نہ ہونا ہے۔ ہماری خواہشات ہمارے اِرد گِرد ایسا مایا جال بُنتی ہیں کہ ہمارا تمام تر فہم اور ادراک طمع اور لالچ میں اُلجھ کر رہ جاتا ہے۔
خواہشات کا یہ پیکر ہمیں سرپٹ دوڑاتا ہی رہتا ہے۔ کبھی ہم تھک کر رُک جاتے ہے تو اگلے ہی پل نئی خواہشات کا حساب کتاب مکمل کرنے پھر سے اندھے راستوں پر دوڑنے لگتے ہیں بلکل منہ زور آندھیوں میں بہنے والے سوکھے پتوں کی طرح جو ہانپتے کانپتے، گِرتے پڑتے، باہم ٹکراتے اور پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔
اسی طرح ہم بھی کبھی اوندھے منہ جا گِرتے ہیں اور کسی نہ کسی کے قدموں تلے روندے جاتے ہیں۔ لیکن اپنی اَناؤں کے کُچلے جانے کا سوگ تک منانے کی فرصت نہیں ملتی۔ اس سفر پر زندگی سے بیزاری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ لیکن اسکا نتیجہ صرف قنوطیت، وحشت، خوف، دکھ اور انتشارِ ذات ہی کی صورت نکلتا ہے۔ جنکی گُھٹن ہم سے ہمارے ہونے کا جواز تک چھین لیتی ہے۔ مایوسی اور شکست ذات کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اس وقت ایک انسان کا "تخلیقی وصف” قدرت کا عطا کیا ایک تحفہ ہوتا ہے۔ اور تخلیق کا مطلب ہی پیدا کرنا یا وجود میں لانا ہے۔ وہ ایک عظیم روح کا مالک ہوتا ہے۔ وہ روح جو اُسکی تخلیق کو عظیم بناتی ہے۔ وہ تو انسان کو اس کے احساسات و خیالات اور جزبات کو ترتیب دینا سکھاتا ہے۔ وہ اِس انسان کو یہ سوال کرتا ہے کہ تو اپنے وجود کے اندر پنپنے والے جزبات میں اس قدر کیسے منتشر ہو سکتا ہے؟
یاد رکھیں جب زندگی انجان بن جاتی ہے، جب اپنوں کی تلخیاں اور روح کی اذیتیں ساری حدود کو توڑ جاتی ہے، جب آنسو آنکھوں کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، الفاظ غم کا مداوا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، دل جیسے ہر چیز سے اُکتا جاتا ہے۔ جب کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ جینے کی ہر وجہ گَلے میں پھنسی رہ جاتی ہے۔ تو پھر صرف ایک اُمید ہوتی ہے جو محبت سے بانہیں پھیلائے صرف ہمارے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ اُس ذاتِ کریم کی اُمید۔ ایک احساس باقی رہتا ہے، اُسکی محبت اور چاہت کا احساس، اُسکے مضبوط اور مستحکم ساتھ کا احساس۔ پھر ﷲ کے سپرد اپنا معاملہ کر دینا بہتر ہوتا ہے۔ بہترین سہارا ہے ﷲ، ایسا سہارا جو کبھی بھی گِرنے یا ڈگمگانے نہیں دیتا۔ پھر خود بھروسہ ہوتا ہے کہ میرا رب بادشاہ ہے کل کائنات کا۔ مجھے کبھی نا اُمید نہیں کرے گا، مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ پھر بھروسہ خود آجاتا ہے۔ پھر خود جینا آجاتا ہے۔ بلکل ویسے ہی جیسے میں جی رہی ہوں۔
ایک بار تم کسی خاموش جگہ جا کر تو بیٹھو اور سوچو کہ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ جب تم بِکھر جاتے ہو، ٹوٹ جاتے ہو، اس دنیا کے فریبی لوگ تمہیں توڑ کر بکھیر دیتے ہیں۔ اس دنیا کے لوگوں کی طرف سے جب آزمائے اور روند دئیے جاتے ہو تو کون تمہیں دیکھتا ہے؟ کون ہے جو کہتا ہے کہ تم اکیلے نہیں ہو، میں تمہارے ساتھ ہوں؟ کون ہے جو تمہارے رونے پہ خوش نہیں ہوتا اور تمہارے دُکھوں کو سمیٹ لیتا ہے؟ کبھی سونچا ہے یہ سب؟ نہیں نا۔
وہی ﷲ ہے۔ وہ ہر وقت تمہیں دیکھتا ہے، تمہارے دُکھ سُنتا ہے، تمہاری آہ بھی سُنتا ہے اور وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی کا احساس بھی دِلاتا ہے۔ وہ بولتا ہے میرے بندے میں تمہارے ساتھ ہوں اور تم پر کی گئی ہر زیادتی دیکھ رہا ہوں مگر یہ آزمائش ہے اور آزمائش آتی ہیں، حالات سخت ہوجاتے ہے، وقت طویل ہوجاتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے ساتھ، ہمارے اِرد گِرد ہو کیا رہا ہے؟ لوگ اس قدر ہم پہ حاوی ہوجاتے ہے کہ بس انجام قریب معلوم ہوتا ہے۔ کبھی عزت کی دھجیاں اُڑتی ہیں تو کبھی سرِ بازار ہمیں رُسوائی کا سامنا ہوتا ہے۔ کبھی گھر والے، کبھی باہر والے ہمیں منہ کا نِوالہ بنا لیتے ہیں۔ اُس لمحے ہمیں لگتا ہے جیسے ہماری سانسیں بند ہوجائے گی یا پھر دماغ کی رَگیں اِس شدتِ درد کی وجہ سے پھٹ جائیں گی۔ ہم خود سے بےبس ہو کر آسمان کی جانب بس دیکھتے رہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اب ہم مرنے والے ہے۔ مگر عزیزو! یہی لمحہ خاص ہوتا ہے، بہت خاص۔ تاریکیوں پہ تاریکیوں میں ڈوب کر جب بندہ اپنے رب کو پُکارے اور پُکار کر کہے
"نہیں کوئی معبودِ برحق تیرے سوا، تو ہر قسم کی شراکت سے پاک ہے میرے رب۔ بےشک میں نے خود پہ ظلم کیا۔ مجھے اندھیروں سے نکال کر سفید روشنی سے آشنا کر دے، میرے ڈوبتے سفینے کو کنارہ دے دے، میرے وجود کی کِرچیوں کو اپنی رحمت کا پیوند لگا دے” وہ رب سُنے گا اور آپکو اندھیرے خاردار راستے سے پھولوں کی سیج کی طرف رہنمائی کرے گا۔ بس کچھ لمحے انتظار کے، خوبصورت صبر کے۔
میرے عزیزو مسئلہ یہ نہیں کہ راستہِ حیات مُشکل ہے، بلکہ یہ مشکلات ہی درحقیقت راستہِ حیات ہے، بُھول بُھلیاں ہی پَگڈنڈیاں ہے، اُتار چَڑھاؤ ہی سَدھاؤ ہے۔ کہانی کی ترتیب یہی ہے کہ پہلے چڑھائی یا اُترائی، پھر ہموار راستہ جہاں سانس سنبھالنے کیلئے چند لمحات ملیں گے۔ یہی ترتیبِ زندگی ہے جو کسی کیلئے بھی نہیں بدلتی، ہمارے لئے بھی نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم پوری زندگی آسائش اور کامیابی کی تیاری کرتے رہتے ہے مگر مُشکل دِنوں کیلئے ہم کم تیار ہوتے ہیں۔ سو جب بھی آزمائش آتی ہے ہمارا سانس اُکھڑ جاتا ہے۔ اس میں ہماری غلطی نہیں ہے کیونکہ ہمیں بچپن سے ہی کامیابی کیلئے اور مُشکل دِنوں سے بچنے کیلئے تیار کیا جاتا ہے، ناکامی کو اَچھوت سمجھا جاتا ہے۔ ہمیں یہ کوئی نہیں سِکھاتا ہے کہ گِرنے کے بعد پورے قد سے دوبارہ اُٹھنا کیسے ہے؟ سارا زور اسی ایک بات پر ہوتا ہے کہ گِرنا ہی نہیں ہے۔ مگر یہ زندگی ہے، بادشاہ ہو، افسر ہو یا کوئی اور دُنیائی منصب والا، یہ چاروں شانے چِت کر دیتی ہے۔ اب ساری کامیابی بس گِر کر اُٹھنے پر منحصر رہ جاتی ہے۔ ہم کو یہ نہیں سِکھایا جاتا کہ زندگی میں دھوکے باز لوگوں سے پالا پڑے گا، کبھی کبھار بہترین دوست دغا دے جائیں گے، خونی رشتے اپنے مفاد کی خاطر کنویں میں دھکا دے دیں گے، نہ یہ سِکھایا جاتا ہے کہ اکثر اوقات اس زندگی میں جھوٹ کو سچ پر ترجیح دی جائے گی۔ اور یہ کہ طاقتور کا جھوٹ غریب کے سچ کے منہ پر بڑے زعم سے چسپاں کیا جائے گا۔ اور یہ کہ "غرض اور مفاد” ہمارے اکثر رشتوں کو بنانے اور بِگاڑنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرے گی۔ انسانوں سے تو الگ بات ہے "غرض اور مفاد” ﷲ سے پوری نہ ہو تو ﷲ اور بندے کے رشتے میں دراڑ آجاتی ہے۔ اور یہ کہ ہمارے سب سے قریب ترین لوگ ہم سے حسد کریں گے اور یہ کہ ہم میں سے اکثر انہی قریب ترین لوگوں کے ہاتھوں سے ڈسے جائیں گے اور سانپ سیڑھی کا کھیل ہار جائیں گے۔
ہم کو یہ نہیں سِکھایا جاتا کہ ہارے ہوئے انسان کیسے جیتے ہے، اس خرابے میں، اس جہاں میں، اسی تاریکی کے درمیان چراغ کیسے جلایا جائے اور چار سُو پھیلے اندھیرے کو اپنی روح کے کواڑوں سے کیسے دور رکھا جائے؟ شکوے سے، طیش سے، غضب سے، جَلن سے، کُڑھن سے کیسے بچا جائے؟
یہ ہم تب ہی جان لیں گے کہ راستہ مشکل نہیں بلکہ مشکل ہی راستہ ہے۔ جب ہم جان لیں گے کہ دوسروں کی غلطیوں سے بچنے سے زیادہ اپنی غلطیوں سے بچنا زیادہ اہم ہے۔ جب ہم مانے گے کہ ہر وہ دن جو قبر سے باہر ہے ایک شاندار دن ہے اور اس دن کچھ بھی ایسا کیا جا سکتا ہے جو قبر میں ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرے۔ جب ہم خود کو احساس دلائے گے کہ بہترین انتقام اپنے حریف سے، اپنے دشمن سے مختلف ہونا ہے، اُسکا اُلٹ ہونا ہے، ورنہ تو دونوں ہمزاد ہوجائیں گے۔ جب ہم خود کو یہ بات باور کرائے گے کہ ہم وہی کچھ بن جاتے ہے جو ہم سوچتے ہے۔ جو کچھ ہم سُنتے ہے وہ بس ایک رائے ہے اور جو کچھ ہم دیکھتے ہے وہ بس ایک زاویہ ہے۔ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوگا ہم اُسے شاید بدل نہیں سکتے، ہاں ہم اُس ہونے کے بارے میں اپنے رویے کو ضرور بدل سکتے ہے۔ ہم سارے خوف سیکھ سکتے ہے اور جب چاہے اپنے سیکھے ہوئے کو غارت کر سکتے ہے اور اپنے سارے ڈر بُھلا سکتے ہے۔ راستے میں گِرنا، نڈھال ہونا سب سفرِ حیات کا حصہ ہے اور اس سب کے بغیر یہ سفر ادھورا رہ جاتا ہے۔ ہمیں موت سے زیادہ اس سے خوف کھانا چاہیے کہ ہم جی ہی نہ سکھیں اور جینے کا وقت ابھی اسی وقت ہے۔ جب زندگی کے مصائبوں سے لڑنے کا ڈر ہمیں جکڑ لیتا ہے، چاہے وہ نقلی چیزوں کا پیدا کردہ ہی کیوں نہ ہو تو وہ ہماری سوچنے سمجھنے کی مہارت سَلب کرکے ہمیں جان لیوا کھائی میں گِرا دیتا ہے۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں ڈر اور ڈر کا خوف ہم میں سے اکثر کو پوری طرح جینے نہیں دیتا۔ ہم سب جستہ جستہ جیتے ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے سارے ڈر اور خوف کے سوا جی سکیں۔ اسکے لئے کچھ خاص کرنا بھی نہیں پڑے گا بس جتنا ڈر ہے، یقین کی مقدار اُس سے کچھ زیادہ رکھنی پڑے گی اور بار بار یہ آیت ذہن پر نقش کرنی ہوگی کہ ” بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے”۔ نقطہ یہ کہ جس چیز پہ آپکو یقین آجائے، اُسے فائدے کیلئے استعمال کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کسی خوش فہمی کا شکار ہے، لیکن اس سے آپکو فائدہ ہو رہا ہے تو خوش فہمی میں رہیں اور کسی غلط فہمی سے بھی ایسا ہوتا ہے تو بھی بہتر ہے۔ کیونکہ میرا ماننا ہے کہ کچھ غلط فہمیاں اور خوش فہمیاں پال کر اُن پر یقین رکھنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔
جب بھی کبھی انسان کی پُرسکون زندگی میں ایسا ایک لمحہ آتا ہے جو اُسے اندر تک جھنجھوڑ دیتا ہے۔ انسان خود کو ایسے مقام پر کھڑا پاتا ہے جہاں ایک جانب خاردار راستہ اور دوسری جانب نہ ختم ہونے والا صحرا نظر آنے لگتا ہے، سب دُھندلا جاتا ہے اور انسان سمجھ نہیں پاتا کہ وہ اب اس مشکل سے کیسے اور کیونکر نکل پائے گا۔ بہت ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد انسان بہت نااُمید ہونے لگتا ہے تبھی ﷲ کی طرف سے آواز آتی ہے وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ ۚ وَكَفٰى بِاللّـٰهِ وَكِيْلًا ۔ تب انسان پریشانیوں سے چور ہو کر فرماتا ہے رَبَّهُ أَنِّي مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ اور ﷲتعالی کا جواب آتا ہے رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔ پھر انسان اضطرابی حالت میں بےکسی اور بےبسی میں غموں سے چور ہو کر فرماتا ہے أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ تو ﷲتعالی فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ۔ بے شک اس ٹوٹے ہوئے انسان کو اپنے سامنے نظر آنے والا کنواں اچانک ایک تالاب کی مانند لگنے لگتا ہے، اپنے پیچھے والی کھائی ایک ہموار راستہ نظر آنے لگتا ہے۔ جس پر قدم رکھتے ہی یہ انسان اپنی منزل کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ یہ اپنی دائیں جانب پائے جانے والے خاردار راستے کو پھولوں سے بھرے راستے میں تبدیل ہوتا محسوس کرتا ہے۔ اس کی بائیں جانب پایا جانے والا طویل صحرا ایک گُلستان میں بدل جاتا ہے۔ اور کوئی غیبی طاقت اِسے اِسکی منزل کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ یہ انسان نہ جانے کیسے ان تمام مُشکلات کو پھلانگتا ہوا اپنی نئی منزل کی جانب گامزن ہو جاتا یے اور جب مُڑ کر پیچھے دیکھتا ہے تو آواز آتی ہے فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً ، إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً۔
خُلاصہ کلام یہ ہے کہ ابھی آپکی زندگی میں بہت سے خوشگوار لمحے آنے والے ہیں۔ یقین کیجئے مُشکل کے ساتھ آسانی بھی رکھی گئی ہے۔ آج جسے آپ اپنی تباہی سمجھ رہے ہیں چند سالوں بعد آپ یہ سوچ کر مُسکرائیں گے کہ وہ تباہی کتنا بڑا سکون لے کر آئی ہے آپکی زندگی میں۔ بس ہمت کبھی مت ہارے۔ ﷲ پر توکل رکھے اور ایک نئی زندگی کا آغاز نئی اُمنگ کے ساتھ کریں۔ آپکا سورج بھی چڑھے گا اور دنیا کے لوگ دیکھتے رہ جائے گے۔ بس آپ ہر حال میں مُسکرائیں کیونکہ رونے سے کبھی بھی مسئلے حل نہیں ہوتے اور رونا ہے تو اپنے رب کے حضور پیش ہو کر، سجدہ ریز ہو جائے اور بیان کر دیجئے اپنے دل کی کیفیت کہ وہی رب ہے جو اپنے بندوں کو ایک ماں کی محبت سے بے انتہا زیادہ محبت کرتا ہے۔ ہمارا رب ہمارے potentials جانتا ہے وہ کہتا ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا۔ تو ہمت اور ایمان کو تھامتے ہوئے مُشکلات کا مقابلہ کرنے کی کوشش جاری رکھیں۔ زندگی کو اپنے وجود کے اندر مُسخر کریں اور اُسے اُسکا حق دیں۔ زندگی کے ہوتے ہوئے زندگی کو کھونے کی بجائے اُسے کھوجنے کی جستجو کریں۔ اُسے شکستہ حالی میں بےقدرا نہ ہونے دیں۔ خودکشی زندگی کی بےقدری اور بے حُرمتی ہے۔ ہمیشہ تاک میں رہنے والی مایوسی سے انسان کی ازلی جنگ ہے جو کائنات میں زندگی کے وجود میں رہنے تک انسان کو ہر حال میں جیتنی ہی ہے کیونکہ انسان کا محور مایوسی نہیں بلکہ زندہ دِلی ہے۔
اسلئے خود کو پہچانیں۔ آپ کون ہو، آپکا مقصد کیا ہے، ﷲ نے آپکو کیوں دنیا میں بھیجا ہے۔ زمین پر موجود ایک درخت، ایک پہاڑ، ایک کیڑا بھی بوجھ نہیں ہے تو آپ بے مقصد کیسے ہوسکتے ہو؟ خود کی تلاش میں نکلیں، اپنے دل میں جھانکیں، سجدوں میں ڈھونڈیں، رات کے اندھیرے میں ہاتھ اُٹھائے۔ کیونکہ جب آپ میں خود کو جاننے کی طلب ہوگی تو ﷲتعالی آپکے دل میں آپکی حیات کا مقصد ڈال دے گا۔ جو ہے وہی رہیں۔ خود کو لوگوں کی دیکھا دیکھی مت بدلیں۔
Don’t try to be someone else because everyone else is already taken.
ابھی اسی وقت یہ عہد کر لیں کہ زندگی میں کبھی ہار نہیں مانے گے، اپنے لئے لڑیں گے اور اپنی ایک منفرد پہچان بنائے گے۔ میں کبھی بھی اُن لوگوں سے متاثر نہیں ہوتی جو اپنے والدین کی شان و شوکت کا دِکھاوا کرتے ہے۔ آپ دنیا کو دکھاؤ کہ آپکا اپنا کیا ہے۔ آپکی پہچان آپکا خاندان، آپکے ماں باپ، آپکے بھائی بہن نہیں بلکہ آپکی پہچان آپ خود ہے۔ خود کو پہچانیں، خود کو وقت دیں۔ یاد رکھیں کہ اچھی سونچ مثبت زندگی کی ایک اہم کڑی ہے۔ زندگی کا مقصد پہچان کر خود کو حوصلہ دیجیئے۔ خود کو سمجھائے کہ ہم victim نہیں بلکہ fighter ہے۔ ہم لڑیں گے اپنی تکلیفوں سے، اپنے غموں سے زندگی کی آخری سانس تک۔
جب بھی محسوس ہو کہ ضبط اور صبر ٹوٹ رہا ہے تو اپنی آنکھیں اپنے ہاتھوں سے خُشک کر لیں اور اپنے آپکو خود چُپ کرائیں۔ کبھی خودکشی کا خیال آئے تو خود کو سمجھائے کہ مصیبتیں تو سب کے پاس ہوتی ہے۔ اُن سے لڑ کر، اپنے آپکو پہچان کر نئی داستان لکھنی ہوتی ہے۔ "اپنا مسیحا خود بن جائیں اور نفرتوں کے دور میں محبتوں کو فروغ دیں۔ ”
وہ ٹوٹنے نہیں دے گا ہمارے صبر کا سِلسلہ
وہ کُن فرمائے گا اور معجزہ ہو جائے گا۔