از۔۔۔ توصیف میر سراجیٓ
عزیز ساتھیوں! سال کے بارہ اسلامی مہینوں میں رمضان المبارک کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ رمضان پورے سال کا قلب ہے، اگر یہ درست رہا تو پورا سال درست ہے، یوں تو رمضان المبارک سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔جس طرح سال کے گیارہ مہینے آتے جاتے ہیں،اسی فطری نظم کے تحت رمضان المبارک کا مہینہ بھی آتا ہے اور چلا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مہینے کی آمد سے قبل ہی ہمارے گھروں، محلوں اور بازاروں کا ماحول جس انداز سے بدلنا شروع ہوتا ہے، وہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری غفلت اور دین سے کوتاہی کے باوجود ہمیں ایک موقع اور عنایت فرما رہا ہے کہ ہم واپس دین مبین کی طرف پلٹ جائے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ آج سے ہی اپنی زندگی تبدیل کرنے کی کوشش کریں اور اللہ کے دربار میں توبہ کرکے اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہوجائے۔میرے عزیز ساتھیوں موت کا کوئی اعتبار ہی نہیں کیا پتہ کہ کب آئے ۔ علامہ اقبال کا یہ شعر ہمارے لئے اشارہ کافی ہے۔
مت کر گناہ توبہ کی آس پے اے انسان
بےاعتبار سی موت ہے نہ جانے کب آئے گی
لہزا آئیے! اس رمضان المبارک کا آغاز اس عزم کے ساتھ کریں کہ اب اپنی زندگی کا رخ دنیا اور دنیاداری سے پھیر کر اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول صلی علیہ وسلم کی طرف موڑ دیں گے۔کیونکہ یہ مہینہ اللہ اور اسکے رسول صلی علیہ وسلم سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کا مہینہ ہے۔کیونکہ یہ برکت کا مہینہ ہے ، نبی کریم صلی علیہ وسلم نے فرمایا : هزا شھر المبارک ( یہ برکت والا مہینہ ہے) حضرت مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اتنی برکتوں کا نزول ہوتا ہے کہ بقیہ پورے سال کی برکتوں کو رمضان المبارک کی برکتوں کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو قطرے کو سمندر کے ساتھ ہوتی ہے۔ پھر دیر کس بات کی آئیے اور رمضان المبارک کی تیاری اسی جوش و جذبے سے کرے جس طرح ہمارے اسلاف اس کے استقبال کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس عظیم الشان مہینے کی پیش نظر سیدِ انسانیت، رحمت العالمین حضرت محمد صلی علیہ وسلم ماہ مبارک کا استقبال رجب کے مہینے سے ہی کیا کرتے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی علیہ وسلم رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرماتے : ” اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں کو ہمارے لئے باعث برکت بنادے اور رمضان کا مہینہ عطا فرمادے۔”
المیہ تو یہ ہے کہ عام مقتدیوں کی تو بات ہی نہیں ہمارے آئمہ حضرات بھی ایک دو مہینے پہلے سے اس دعا کا اہتمام نہیں کرتے، افسوس کہ نبی کریم صلی علیہ وسلم کی یہ سنت ختم ہوتی جارہی ہیں ہماری مساجدوں سے۔ہمارے اسلاف بھی استقبال رمضان کا خاص اہتمام کرتے اور اس کے لیے دعاؤں کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے ، پر افسوس ہائے وہ امت نہ رہی اقبال نے دل پے ہاتھ رکھ کر امت مسلمہ سے یہی کہا تھا کہ ” تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی” کاش آج بھی ہم اپنے اسلاف کی طرح اس سنت مبارکہ کو زندہ رکھتے تاکہ کل روز محشر میں نبی کریم صلی علیہ وسلم کے شفاعت کے مستحق بنتے۔ مشہور تابعی ابن الفضل علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں رمضان المبارک کا اتنا اہتمام ہوتا تھا کہ:” ہم چھ مہینے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے تھے کہ وہ ہمیں رمضان المبارک تک پہنچادے اور جب رمضان المبارک گزر جاتا تھا تو بقیہ چھ مہینے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! ہم سے رمضان المبارک کو قبول فرما لے۔”
آخر پر ہم نبی کریم صلی علیہ وسلم کے اس خطبے کو پڑھتے ہیں جو رمضان المبارک کی آمد سے پہلے نبی کریم صلی علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے اہمیت رمضان اور فضائل رمضان پر ایک جامعہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا بقول مولانا محمد ضیاء القاسمی اس خطبہ کی عظمت و رفعت کا کیا کہنا ؟
زبان نبوت کی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور شان رمضان کی
مقرر بھی اعلیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور موضوع بھی اعلیٰ
مجمع بھی اعلیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسجد بھی اعلیٰ
یہ حدیث مشکوٰۃ کے اندر موجود ہے ۔
” سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی کریم صلی علیہ وسلم نے خطبہ دیا جس میں فرمایا، اے لوگوں! ایک بڑی عظمت والا، بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے، وہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں روضہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینے کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل کر دیا ہے جو شخص اس مہینے میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود کریگا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینے میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا دوسرے مہینہ میں کسی نے ستر فرض ادا کیے۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ۔ اور یہ مہینہ سوسائٹی کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔”
اس حدیث مبارک کی تشریح کرتے ہوئے مولانا جلیل احسن ندوی لکھتے ہیں کہ صبر کا مہینہ ہونے سے مطلب یہ ہے کہ روزوں کے ذریعہ مؤمن کو اللہ کی راہ میں جمنے اور اپنی خواہشات پر قابو پانے کی تربیت دی جاتی ہے۔اس کے آگے رقمطراز ہیں کہ "ہمدردی کا مہینہ” ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ روزہ دار جن کو اللہ تعالیٰ نے کھاتا پیتا بنایا ہے ان کو چاہیے کہ بستی کے حاجت مندوں کو اللہ کے دیئے ہوئے انعام میں شریک کریں اور ان کی سحری اور افطاری کا انتظام کریں۔
لہزا! اس مہینے کو غنیمت جان کر یہ فیصلہ کر لیجیے کہ اس بار اپنی زندگی کا رخ بدل کر مجھے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ اس رمضان میں ہمارا تعلق اپنے ساتھ مضبوط بنیادوں پر قائم فرما اور ہمیں بھی اپنا خلیل بنالے ۔۔۔۔ ثم آمین
کرتے ہے ہم سب استقبال ماہ مبارک کا
توصیف سراجیٓ احتساب کر اپنے افعال کا