ٹرانسپورٹ میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے جو خوش آئند پہلو ہے اور اس تیز رفتار دور میں یہاں کے لوگ اب دوسری دنیا کی طرح پیدل چلنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں اور چھوٹی بڑی گاڑیوں کا سہارا لیکر سفرکرنے میں عافیت سمجھتے تھے۔ لیکن ٹرانسپورٹروں کی من مانیاں عروج پر ہیں جس سے عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے۔۔ٹرانسپورٹ کے اس بے ہنگم اورناقص نظام سے عوامی حلقوں میں تشویش پائی جارہی ہے اور وادی کے شہر و دیہات میں مسافر گاڑیوں بالخصوص منی بس ڈرائیوروں نے لوگوں کے سفر کو اْن کے لئے عذاب دہ بنا دیا ہے۔
اور اْن کی من مانیوں سے اورلوڈنگ اور بے موقعہ وبار بار اسٹاپ لیکر منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنے سے مسافر سر پھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ شہر ودیہات کے ہر جگہ پر گاڑیوں میں سوار مسافرٹرانسپورٹروں کی من مانیوں پر نالاں ہوتے ہیں اور حقیقت ہے کہ یہ ٹرانسپورٹ عام لوگوں کے لئے درد سر بنا ہواہے اتنا ہی نہیں ہے۔یہاں منی بس اور آوارہ سوموڈرائیور عام انسانوں کو بھیڑ بکریوں کے مانند گاڑیوں میں سوار کرتے ہیں اور اسٹاپ در اسٹاپ کرکے مسافروں کو تنگ طلب کرتے ہیں اور اورلوڈنگ سے مسافروں کا ستیا ناس ہوجاتاہے۔
گھر سے اپ ٹوڈیٹ یعنی وضع قطع اپنے آپ کو سجاچمکا کر مسافر نکلتا ہے لیکن اور لوڈنگ کی وجہ سے ان کا حال بے حال ہوجاتاہے۔ اس کے علاوہ اور لوڈنگ سے شرم وحیاء کی تما م حدیں پار ہوجاتی ہیں کیونکہ غیر محرم عورتیں و مرد اور لوڈنگ میں ایسے میل کھاتے ہیں کہ شیطان بھی شرم سے جھک جاتاہے۔ ٹرانسپورٹروں کی جانب سے درد ناک عذاب ہے کہ یہ ڈرائیور حضرات اسٹاپ در اسٹاپ کرکے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہیں جس سے مسافروں کا کام کاج بھی متاثر ہوجاتاہے اور بسا اوقات سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے افراد کو ٹرانسپور ٹروں کے رویے سے اپنے روز گار سے ہاتھ دھونا پڑتاہے یا اْن کی تبدیلی غیر متوقع جگہوں پر کی جاتی ہے جو اْن کے لئے عذاب دہ ثابت ہورہا ہے اس طرح سے بے ہنگم اور ناقص ٹرانسپورٹ نظام ہر عام و خاص کے لئے بارگراں اور درد سر بنا ہوا ہے۔
ٹرانسپورٹ میں روز اضافہ سے بد ترین ٹریفک جام بھی لوگوں کیلئے کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ اگر چہ اس کیلئے قوانیں اور قواعد وضوابط مرتب ہیں اور محکمہ بھی قائم ہے لیکن ٹرانسپورٹ نظام کی بدتر حالت کی وجہ سے اس میں کسی قسم کا سدھار دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ سگنل لائٹس یا ٹریفک پولیس اگر چہ وادی کے شہر و کئی قصبوں میں دکھائی دے رہے ہیں تاہم ان کا رول ٹرانسپورٹ کی اضافی نوعیت اور سڑکوں کی چستی و خستہ حالی سے منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ بدقسمتی کی وجہ سے محکمہ ٹرانسپورٹ کاغذی گھوڑے دوڑ انے کے سِوا کچھ نہیں کر پاتا ہے۔ حکام ٹرانسپورٹ میں چپ سا دھ لیتے ہیں اور نظام کو سدھار نے کی طرف کوئی توجہ مرکوز نہیں کرتا ہے جو روز افزوں عام لوگوں کے لئے کسی المیہ اور مصیبت سے کم نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ متعلقہ حکام اس بے ہنگم اور ناقص ٹرانسپورٹ نظام کی بہتری کیلئے فوری طور موثر اور ٹھوس اقدام اٹھائیں تاکہ عام مسافروں کا سفر کرنا کوئی مصیبت نہیں بلکہ آرام دہ ثابت ہوجائے۔