از قلم: منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط 6006952656
عرصہ دراز سے وادی کشمیر سیاسی, سماجی یا دیگر معملوں کے حوالے سےمضطرب ہے. یہاں روز کسی نئے حکم کی کارستانی سے لوگوں کی زندگی میں پریشانی نمودار ہوتی ہے. چونکہ طویل وقت سے یہاں کا نظام سنبھلنے کی طرف بڑھنے کی کوشش میں تھا خاصکر یہاں کے تعلیمی ادارے طویل وقت کے بعد شروع ہوئے تھے لیکن قسمت کے ماروں کا حال ہی عجیب ہے. چند دنوں پہلے ہمارے تعلیمی اداروں نے کام کاج سنبھال کر ہماری امید میں جان بھر دی تھی.
والدینوں نے سوچا تھا کہ شاید تعلیمی میدان میں بہار پھر سے نمودار ہوا اور ہمارے بچوں کے تعلیمی آشیانے پھر سے آباد ہونے لگے لیکن یہاں کا آدم ہی نرالا ہے اور شاہی فرمان نے ہماری امیدوں پر پانی پھیرا. دو سال سے زائد کا وقت گزرنے کے بعد بھی ہمارا تعلیمی نظام ٹھیک نہیں ہوا بلکہ یہ اسی طرح ناتوانی کے دن کاٹ رہا ہے جیسے پہلے. کرونا نامی وبا کو ڈھال بنا کر انتظامیہ نے پھر سے اسکولوں کو مقفل کرنے کا حکمنامہ اجرا کیا جس سے ہر علمی خیر خواہ کے وجود میں زلزلہ پیدا ہوا کیونکہ یہاں کا فرد فرد جانتا ہے کہ ہمارا تعلیمی میدان کس قدر خسارے کا شکار ہے.
کرونا کی روک تھام کے لیے اگر سرکار اسقدر فکرمند ہے تو سب سے پہلے بازاروں سے لیکر عام دفتروں تک, پارکوں سے لیکر سیاسی جلسوں تک جائزہ لینا بہتر تھا مگر مصیبت اسقدر سخت ہے کہ یہاں ہمیشہ الٹی گنگا ہی بہتی ہے جس کے سبب اب یہاں کا تعلیمی نظام اپنے آخری دنوں کی آغوش میں ہے. یہاں کے لوگوں کو اس حوالے سے اپنی فکر کو متحرک کرنا چاہیے کیونکہ یہاں ہمارے شگوفےایک جاہلانہ چال کے شکار بن رہے ہیں اور ان کا کل تباہی کا لقمہ بن رہا ہے. سال کے تمام مہینے بند رہتے ہیں اور آخر میں بچوں کو کثیر نمبرات دے کر ان کے والدینوں کو خوشی کا یہ پیغام دیتے ہیں کہ انتظامیہ تعلیمی ترقی کے لیے کمر بستہ ہے اور انتہائی فکر مند ہے جو ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے. کرونا سے ہمارے سماج کے چند انسان مر سکتے ہیں اور تعلیم کے بغیر ہمارا سارا سماج ہی عمر بھر کے لیے ختم ہوجائے گا. اس کے بغیر ہماری ساری وراثت دشمن کی جاگیر بن سکتی ہے جس کے لیے یہ ڈرامے کیے جارہے ہیں.
آج اس حملے کو سنجیدہ نگاہ سے دیکھ کر سمجھنا چاہیے کہ چاہیے ہمارے ساتھ کیا بھی ہوجائے ہم اپنے بچوں کےلیے فکر مند بنیں گے اور تعلیمی ترقی کے لیے کسی بھی للکار کو قبول کریں گے.یہاں موجودہ دنوں میں کسی جگہ بھی کرونا کے حوالے سے انتظامیہ فکر مند نہیں ہے بلکہ فقط تعلیمی اداروں کو کرونا کا نام دے کر مقفل کیا جاتا ہے. ٹولپ گارڈن میں وادی اور باہر سے آئے سیاحوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور وہاں کرونا نام کے حوالے سے کوئی فرمان نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر ایک ایسے شعبے کو قتل کرنے کی سازش ہے جس کے مرنے سے یہ سماج دشمن کے تیر کا شکار ہوگا.
اب ان شاہین بچوں کو اپنے گھروں میں ہی اس قدر تربیت یافتہ بناو جس سے ظالم کے تمام ارادے خاک آلودہ ہوجائے.اپنے تعلیمی افق کو چمکیلا رکھنے کے لیے ہمیں بیدار ہونا چاہیے کہ ہمیں کس کھیل میں دھکیلا جارہا ہے جس سے ہمارا تعلیمی نظام قتل ہورہا ہے. لوگو ہوش کے ناخن لے کر اس مسلے کے لیے فکر مند ہوجاو ورنہ ہماری کشتی ڈھوبنے کے قریب ہے پھر ساری داستان ہی اختتام کو پہونچے گی. کلیجہ شق ہورہا ہے کہ ان شگوفوں کا کیا ہوگا جن کے جڑوں کو تعلیم سے سیراب کرنا تھا اور اگر سیراب نا ہوئے تو مرجھانے کے سوا اور کیا راستہ بچا ہے.
کلیجہ تھام لو رودادِِ غم ہم کوسنانے دو
تمہیں دکھتا ہوا دل ہم دکھاتے ہیں دکھانے دو
اب یہ للکار بھی قبول ہے لیکن قوم کے باہوش جوانوں کو مضبوط بننا ہے اپنے اردگرد میں موجود بچوں کی تعلیم کے لیے خود کو پیش رکھو تاکہ ہم اس مصیبت کی لڑائی کو جیت میں تبدیل کرسکیں گے. یہ شگوفے ہمارے روشن کل کے ضامن ہیں اور اگر ان کی تربیت میں کمزوری رہی تو ہمارا کل اندھیرا بن جائے گا. اللہ ہمارے جگر گوشوں کا محافظ بنے اور ان شگوفوں کو کامیابی عطا کرے.آمین