ڈاکٹر شہزاد ملک
8899772220
ایک ایسے خطہ میں جنم لیا جہاں بچپن سے ہی سرحد پار فائرنگ، شلنگ کی وجہ سے کئی گھروں کو اُجڑتے بستے دیکھا۔امن وقانون کی صورتحال اور ہمہ وقت جان کی فکر جیسی صورتحال نے کئی دیگر مسائل جیسے غریبی، تعمیر وترقی کا فقدان، تعلیمی، طبی ودیگر ضروریات ِ زندگی کی محرومی بھی دیکھی۔اپنے ساتھیوں، دوستوں اور ہم جماعیتوں کو کھوتے اور کسمپرسی کی حالت ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑ کر تلاش ِ معاش کی جدوجہد کرتے دیکھا۔
ایسے اسکولوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جہاں بیٹھنے کے لئے پتھروں کا استعمال کیاجاتاتھا، جہاں ڈیسک، کُرسی اور ٹاٹ کا تصور نہ تھا۔بچپن سے ہی اِن نامحرومیوں اور مسائل کو دیکھ کر بہت دِل رنجیدہ ہوتا، اُسی وقت ارادہ کر لیا کہ میں اِ ن مسائل کے حل کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اگر توفیق دی تو کچھ کرؤں، اس مقصد کی حصولی کے لئے اللہ کے سربسجود ہوااور کئی بار گڑگڑھا کر بارگاہ الہیٰ سے دُعا مانگی۔دوران ِ کالج اعلیٰ پیر پونچھ، جہاں رہائش رکھی تھی، سے چھوٹے پیمانے پر فلاحی سرگرمیاں کا آغاز کیا۔
نیت صاف اور ارادے نیک تھے تو اللہ کے فضل وکرم سے یہ چھوٹی چھوٹی کوششیں کافی نتیجہ خیز ثابت ہوئیں اور سماجی حلقوں کے ذی شعور افراد کا تعاون بھی ملا۔ پھر رہبر ِ تعلیم ٹیچرز کے طور تعیناتی ہوئی لیکن اللہ نے منزل کہیں اور لکھی تھی اور پھر وائس چانسلر سائی ناتھ یونیورسٹی تک کا سفر تہہ کیا۔ اِس عہدے پر پہنچ کر بچپن میں پیش آئی مشکلات اور ماضی کی رہ رہ کر یاد آنے لگی اور ضمیر مجھے بار بار جھنجوڑنے لگاکہ آج وقت ہے کچھ کرنے کا۔ اس لئے تعلیمی اداروں اور اہم مقامات پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدامات شروع کئے جس کیلئے عوام کی بھی بھر پور حمایت ملی لیکن مقامی سیاستدانوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اور انہوں نے اِس عمل میں بھی کئی طرح کی رکاوٹیں حائل کرنے کے ساتھ ساتھ میرے تئیں غلط پروپگنڈہ بھی شروع کر دیا۔ اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ حقیقی معنوں میں یہاں کوئی ترقی چاہتا نہیں، مسائل کو حل کرنے کی بجائے اُلجھائے رکھنا چاہتے ہیں۔
داستان طویل ہے، بہرکیف میں نے فلاحی سرگرمیوں واقدامات کے اِس عمل کیلئے ہمہ وقت خود کو وقف کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وائس چانسلر عہدے سے استعفیٰ دیا اور وہاں شیایان ِ شان زندگی چھوڑ کر واپس اپنے لوگوں کے بیچ آیا، جہاں سرحدی مکینوں کے مسائل ومشکلات کو اُجاگر کرنے اور اُن کے دکھ درد میں شریک ہونے کا بیڑا اُٹھایا۔ بینکروں کی تعمیر کے معاملہ کوسنجیدگی سے اُجاگر کرنا شروع کیا تھا، اِس کے اند اتنے پیمانے پر بے ضابطگیوں، دھاندلیوں، ہیرپھیر اور غبن کے انکشافات ہوئے کہ میں دنگ رہ گیاکہ ہمارے لوگوں کے ساتھ ہوکیا رہا ہے۔
حدمتارکہ کے نزدیکی لوگوں کے مسائل پر بات کرنے کے دوران مجھ سے سانبہ، کٹھوعہ، ہیرا نگر، ارنیہ، سچیت گڑھ،، اکھنور، پرگوال سیکٹر میں بین الاقوامی سرحد اور ایل او سی پر رہنے والے لوگ بھی ملے یا بذریعہ فون اپنے مسائل بتلائے۔ حیرانگی ہوئی کہ سرحدی مکین چھوٹے چھوٹے مسائل کو لیکر اِس قدر متاثرہیں اور اِن کی آواز اُٹھانے کو کوئی تیار نہیں۔اِس پر بھی اگر بات کی تو سیاسی لیڈران جوعوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے اُتنے سنجیدہ نہیں جتنے مسائل کو طوالت دینے میں توانائی صرف کرتے ہیں، نے اِس عمل کو بھی طرح طرح کے نام دیکر سماجی حلقوں میں غلط تاثر قائم کرنے میں کوئی کثرباقی نہ چھوڑی۔خیر عوام تو بہترین جج ہیں، وہ سب جانتے ہیں۔بالآخر راقم نے جموں وکشمیر بارڈر ایریاڈولپمنٹ کانفرنس(JKBADC)نام سے ایک تنظیم رجسٹرڈ کروائی، جس کو تشکیل دینے کے باقاعدہ قواعد وضوابط مرتب کئے ہیں۔
یہ غیر سرکاری تنظیم میں شفافیت،جوابدہی اور احتساب کا مکمل انتظام ہے۔تنظیم کا خالص مقصد لکھن پور سے لیکر اوڑی، کرناہ، کپواڑہ، ٹنگڈار،کیرن اور راجوری پونچھ تک بین الاقوامی اور کنٹرول لائن کے نزدیک رہائش پذیر لوگوں کے مسائل ومشکلات کو اُجاگر کرنا اور وہاں تعمیر وترقی کے لئے اقدامات اُٹھانا ہے۔ہماری اِس تنظیم کا مشن بینکروں کی قواعدو ضوابط کے تحت معیاد بند ومعیاری تعمیر، بارڈر ایریا ڈولپمنٹ پلان(BADP)کے تحت مختص فنڈز کا منصفانہ استعمال،تسلسل سے نوجوانوں کے لئے خصوصی بھرتی مہم،ٹرامہ اسپتالوں کا قیام، سرکاری تعلیمی اداروں اور ہیلتھ مراکز میں بہتر سہولیات، خستہ حال سڑکوں میں بہتری، معزز شہریوں، خواتین، بیواؤں اور یتیموں کی بہبودی، سماج کے کمزور اور غریب طبقہ جات کی فلاح وبہبود، سرحدی علاقہ جات کے لئے طلبا کے لئے بہتر تعلیمی سہولیات، بارڈرایریا ڈولپمنٹ اتھارٹی کا قیام، سرحدی علاقہ کے لوگوں کے بنیادی اور انسانی حقوق کا تحفظ، سماجی، معاشی، لسانی، سیاسی اور ثقافتی ترویج وترقیسرحدی مکینوں کے سرکاری ملازمین اور نجی سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کے مفادات اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرنا، کارپوریٹ سماجی ذمہ داری یعنیCSRکے تحت ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے صنعتکاروں کو سرحدی علاقوں میں لوگوں کی سہولت کے لئے صحت وتعلیم سیکٹر میں رقومات خرچ کرنے کے لئے آمادہ کرنا، شلنگ اور کرائس فائرنگ میں مارے جانے والے اور زخمی افراد کے لئے خصوصی ایکس گریشیا /پنشن اسکیم، دفاعی مقاصد کے لئے استعمال ہورہی اراضی کے مالکان کو اُس کا معقول معاوضہ، سرحدی علاقوں میں بلاخلل زرعی سرگرمیوں کو یقینی بنانے کے اقدامات اُٹھانا، امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے مثبت اقدامات اُٹھانا، طلبا کے اندر تقابلی رحجان کو بڑھانے اور اُن کی صلاحیتوں کو مثبت سمت دینے کی غرض سے اسکولوں، کالجوں کے اشتراک سے تقرریری، تحریری مقابلوں، سیمینار، کانفرنسوں اور مباحثوں کا اہتمام کرنا، سرحدی اسکولوں کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے تعلیمی وکھیل کود سرگرمیاں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر انعامات وعزت افزائی، سرحدی بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی حصولی کے لئے خصوصی اسکالرشپ اسکیم کی منظوری کیلئے مخلصانہ کوششیں کرنا ہے۔
ہم نے صدق ِ دلی سے سرحد ی مکینوں کی موثر آواز بننے اور بغیر کسی لالچ اُن کی مشکلات کو کم کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے جس کے لئے اب ہم نے خاموشی سے کام کرنے کو اصول بنا یا ہے تاکہ متاثرین، مستحقین کی مدد بھی ہوجائے اور سیاستدانوں کو غلط پروپگنڈہ کرنے کا موقع بھی نہ ملے۔ لوگوں کی سچے من سے خدمت، اُنہیں وہ عزت واحترام دینا جس کے وہ مستحق ہیں، یہ ہمارا اصول رہا ہے جس میں رتی بھر تبدیلی آئی نہ آئے گی۔ انشا اللہء۔ توقع ہے کہ آپ بھی ہماری کوششوں کوکامیابوں میں بدلنے کے لئے بھرپور تعاون دیں گے اور ہماری رہنمائی کریں گے اور مقاصد کی حصولی کے لئے اپنی قیمتی رائے، تجاویز اور مشوروں سے بھی ہمیں وقتاًفوقتاًنوازیں گے۔ دعا گو ہیں کہ ’حق، انصاف اور عزت ِ نفس‘کی یہ جدوجہد رنگ لائے۔آمین
نوٹ: راقم سابقہ وائس چانسلر سائی ناتھ یونیورسٹی اور جموں وکشمیر بارڈرایریا ڈولپمنٹ کانفرنس کے چیئرمین ہیں۔