عذراء زمرود
کجر کولگام
عرف عام میں پندرہ شعبان کی رات کو”شب برأت“کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ”شب برأت“ فارسی اور عربی یا اُردو کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔
شب فارسی میں رات کو کہتے ہیں اور برأہ عربی کا لفظ ہے،جس کے معنی”بری ہونے اور نجات پانے“ کے ہیں۔ اس اعتبار سے اس کا معنی ہوا”بیزاری والی رات“۔جو بلکل نامناسب لگتا ہے۔
اُردو میں اس طرح کے دو لفظ آتے ہیں (برات ،براءت) برات سے مراد وہ جلوس جو دُولہا اپنے ساتھ شادی کے لیے لے کر جاتا ہے ۔براءت سے مراد وہ دستاویز جس کے ذریعے سے کسی کو کسی الزام سے بری کیا جائے۔
اس نام “شب برأت” کے خالص عربی نہ ہونے سے ہی اس کے بناوٹی ہونے کا ثبوت ملتا ہے، اگر دین میں اس رات منانے کی کوئی اہمیت ہوتی تو اس کا نام ”لیلۃ البرأة“ ہوتا۔جبکہ دین حنیف میں اس رات کو منانے کا کسی صحیح حدیث سے ثبوت نہیں ملتا۔
اللہ تعالیٰ کا انسان کو مبعوث کرنے کا مقصد بندگی ہے مگر ہم اپنے مقصدِ تخلیق کو دنیاوی مصروفیات اور مادی محبت کی وجہ سے فراموش کرچکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات کی طرف عدمِ توجہ، عبادات، اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی ہمارے سینوں سے نکلتی جارہی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اپنی اصل کھودینے اور اپنے مقصد کو بھول جانے کا احساس بھی ہمارے اندر موجود نہیں۔ احساس کا خاتمہ اور قدرو قیمت سے لاعلمی آہستہ آہستہ انسان کو گمراہی کی طرف مائل کرتی چلی جاتی ہے۔ اسی اثناء میں شب براءت منانے کی بدعت بھی ہے جو شعبان کی پندرہویں شب کو منعقد کی جاتی ہے جس میں لوگ جشن مناتے ہیں اور دن میں روزے رکھتے ہیں جبکہ اس بارے میں کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے اور اس شب میں مخصوص عبادات مثلاً نوافل وغیرہ کے اہتمام کے بارے میں وارد احادیث یا تو ضعیف اور یاپھر موضوع ہیں ۔
محدث البانی رحمہ اللہ نے پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت والی ایک روایت کو مختلف طرق کی بنا پر ”صحیح” قرار دیا ہے
روایت یہ ہے! کہ
رسول ﷺ نے فرمایا :
’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ‘پس اللہ تعا لیٰ اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے۔‘‘
(السلسلۃ الصحیحۃ : 1144)
(صحیح الترغیب و الترھیب: 2767‘علامہ البانی۔)
لیکن بہت سارے علماء کی تحقیق و تخریج اور محدثین کرام کی وضاحت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ صاحب کا نصف شعبان والی ایک حدیث کو صحیح یا حسن کہنا غلطی ہے،بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے جن مختلف طرق کی بنا پر اس روایت کو صحیح کہا ہے وہ تمام طرق ہی اپنی جگہ پر ضعیف ہیں،
ہمارے ہاں شبِ برات کے حوالے سے دو انتہائیں پائی جاتیں ہیں۔ایک طرف متشدّد ین ہیں جو اسے بلکل بدعت قراردیتے ہیں اور اس سے متعلقہ روایت کردہ تمام احادیثِ مبارکہ کو ضعیف یا موضوع سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف جہلاء ہیں جنہوں نے اغیار کی نقالی کرتے ہوئے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات عبادت کا ایک حصہ بنا لیا ہے۔ اس مضمون میں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان امور کا جائزہ لیا گیا ہے جن کا کرنا ماہِ شعبان میں مستحب و مستحسن ہے اور ان خرافات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جن کو عبادت کے نام پر دین کا ایک حصہ بنا لیا گیا۔
در اصل حدیث کی بنیادی طور پردو اقسام ہیں ۔ ایک ’’مقبول‘‘ یعنی جس کو قبول کیا جائے اور دوسری ’’مردود‘‘یعنی جس کو ردّ کر دیا جائے ۔’’مقبول‘‘ روایت وہ ہے جو احکامِ شرعیہ کے ثبوت کے لیے دلیل بن سکے اور ’’مردود‘‘ روایت وہ ہے جو احکامِ شرعیہ کے ثبوت کے لیے دلیل نہ بن سکے ۔ ’’مقبول‘‘ روایت کی دو قسمیں’’صحیح‘‘ اور ’’حسن‘‘ ہیں جبکہ باقی تمام اقسامِ حدیث مثلاً ضعیف ‘ موضوع اور منکر وغیرہ ’’مردود‘‘ ہیں ‘ جن کو دین کے کسی معاملے میں حجت نہیں بنایا جا سکتا ۔
"شب برات کی مخصوص عبادتیں۔۔۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو اپنی مخلوق پر نظر ڈالتا ہے اور اپنے تمام بندوں کی مغفرت کر دیتا ہے، ما سوائے دو قسم کے آدمیوں کے، کسی سے بغض رکھنے والا اور کسی کا قاتل۔ ( مسند احمد: صحیح: حدیث نمبر 12763)
اسی رات کو ہمارے ہاں شب برات کہتے ہیں اس رات کی فضیلت کے بارے میں صرف مذکورہ بالا حدیث صحیح ہے، لیکن اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس رات کا خصوصی قیام کیا جائے اور اس کے دن کا خصوصی روزہ رکھا جائے،خاص عبادت کے لئے خاص دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس حدیث میں نصف شعبان کی فضیلت بیان کی گئی ہے جس طرح ہر سوموار اور جمعرات کی فضیلت بھی ہے۔
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات دنیا والوں کی طرف جھانکتا ہے اور اپنی تمام مخلوق کو معاف کر دیتا ہے، سوائے مشرک اور بغض وعداوت اور کینہ رکھنے والے کے ۔( السلسلۃ الصححۃ: صحیح: حدیث نمبر: 3407)
یہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نصف شعبان کی رات کی فضیلت تو صحیح احادیث سے ثابت ہے مگر اس رات کو خالص عبادت کے لئے مقرر کرنا ثابت نہیں ہے ۔ اب اہل بدعت اس رات کی فضیلت کا اعتبار کرتے ہوئے اس رات عمومی عبادات مثلا نوافل ‘ تلاوت اور انفرادی ذکرو اذکار وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں لیکن اس رات کی کوئی مخصوص عبادت کئ پہ بھی ثابت نہیں ہے مثلاً بارہ رکعتیں پڑھنا اور ہر رکعت میں تیس دفعہ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ‘‘پڑھناکسی بھی صحیح یا حسن روایت سے ثابت نہیں ہے ‘بلکہ اس رات کی مخصوص عبادات کے حوالے سے جتنی روایات مروی ہیں وہ موضوعات کے درجے کی ہیں۔
15 شعبان کا روزہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نصف شعبان ہو جائے، تو روزے نہ رکھو، جب تک کہ رمضان نہ آ جائے ( سنن ابنِ ماجہ: صحیح: حدیث نمبر: 1651)
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ جب نصف شعبان ہو جائے تو پھر روزہ نہ رکھو ۔‘‘ ، رواہ ابوداؤد و الترمذی و ابن ماجہ و الدارمی ۔(مشکوٰۃ المصابیح جلد اوّل،صحیح، حدیث نمبر 1974)
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( نفل ) روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ( نفل ) روزے رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے تھے : آپ ناغہ نہیں کریں گے ۔ اور کبھی چھوڑے رہتے حتیٰ کہ ہم کہتے : آپ روزے نہیں رکھیں گے ۔ آپ سارا شعبان یا اکثر شعبان روزے رکھتے تھے ۔ ( سنن نسائی،حدیث نمبر : 2179 صحیح)
ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہیں کہ صرف 15 شعبان کا روزہ رکھنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے البتہ یہ ضرور ثابت ہے کہ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا اللہ کے رسولﷺ سے ثابت ہے ‘لیکن آپؐ نے اپنی اُمت کو پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع فرما دیا،تاکہ رمضان کے روزوں میں سستی پیدا نہ ہو۔اس لیے شعبان کے مہینے کی عموعی فضیلت کے تحت یا ایامِ بیض”13,14, 15 ” میں روزہ رکھنے والی صحیح احادیث سے استدلال کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ حضرت قتادہ بن ملحان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَاْمُرُنَا اَنْ نَصُوْمَ الْبِیْضَ ثَلَاثَ عَشْرَۃَ وَاَرْبَعَ عَشْرَۃَ وَخَمْسَ عَشْرَۃَ (۲۸)
’’ اللہ کے ر سول ﷺ ہمیں ایامِ بیض یعنی ہر مہینے کی تیرہ ‘ چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے ۔‘‘
لیکن پندرہ شعبان کے روزے کی علیحدہ سے کوئی خصوصی فضیلت کسی صحیح روایت سے ثابت‘نہیں ہے ۔اس بارے میں جو روایات ہیں وہ موضوع ہیں‘ لہٰذا اگر کوئی شخص ایامِ بیض کے روزے ہر ماہ رکھتا ہے اوروہ پندرہ شعبان کا روزہ رکھ لے تو اس کے لیے باعث اجروثواب ہو گا ۔
اگر کسی مخصوص عبادت کے لئے کسی رات کی تخصیص جائز ہوتی توجمعہ کی رات دیگر راتوں سے بہتر تھی کیونکہ اس کادن بہترین دن ہے جس پر سورج طلوع ہوکر چمکے، جیسا کہ نبی ﷺ سے صحیح احادیث میں یہ بات ثابت ہے۔
جب نبی ﷺ نے جمعہ کی شب کو کسی عبادت کے لئے خاص کرنے سے منع فرما دیا تو اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کسی اور رات کو کسی عبادت کے لئے خاص کرنا بدرجہ اولی ممنوع ہے کیونکہ مخصوص عبادت کے لئے کسی رات کی تخصیص اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ کسی صحیح دلیل سے تخصیص کے جواز کا پتہ نہ چلے ۔
چنانچہ اگر پندرہویں شعبان کی شب یا رجب کے پہلے جمعہ کی رات یا شب اسراء و معراج میں جشن منانا یاکچھ مخصوص عبادتیں انجام دینا جائز ہوتا تونبی ﷺ امت کو ضرور اس کی راہنمائی فرماتے یاخود ان راتوں میں جشن مناتے اور عبادت کرتے۔
اور اگر درحقیقت عہد نبوی میں ایسی کوئی چیز ہوئی ہوتی توصحابہ کرام اسے نبی ﷺ سے نقل کراکے امت تک ضرور پہنچاتے ،اور قطعاً اسے نہ چھپاتے ، صحابہ کرام لوگوں میں سے بہتر اور انبیاء کے بعد امت کے سب سے زیادہ خیر خواہ تھے، رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔دراصل علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس رات کی فضیلت کے بارے میں اہل شام وغیرہ سےسلف کے کچھ آثار ملتے ہیں لیکن جمہور اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں جشن منانا بدعت ہے ، اور اس کو منانے کی فضیلت میں وارد سبھی احادیث ضعیف اور بعض موضوع ہیں ۔اصل میں سب سے بہتر کام وہ ہیں جو ہدایت کے طریقہ پر ہوں، اور سب سے برے کام وہ ہیں جو دین میں نئے ایجاد کئے گئے ہوں .اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور سارے مسلمانوں کو سنت پر مضبوطی کے ساتھ کاربند اور اس پر ثابت قدم رہنے اور خلاف سنت کاموں سے اجتناب کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
واللہ اعلم باالصواب