عابد حسین راتھر
ای میل: [email protected]
موبائیل نمبر : 7006569430
جب سے کائنات وجود میں آئی ہے اور انسان اس کائنات میں ارتقاء پذیر ہوا تب سے بہت سارے اقوام وجود میں آئے اور وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے گئے۔ کچھ اقوام ترقی کے عروج تک پہنچ گئے اور آخر میں انکا زوال آگیا۔ بہت ساری تہذیبوں کے ناپید ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اُنہوں نے قدرتی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے انسانوں کے زندہ رہنے کے لیے ایک باضابطہ نظام حیات قائم کیا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس نظام کی خلاف ورزی کی اُنہیں پہلے باز آنے کے لیے وقت دیا گیا اور جو لوگ اس خلاف ورزی سے باز نہیں آئے اور برے کاموں پر ڈٹے رہے اُنہیں سخت سزا دی گئی اور اُن کا انجام تباہی تھا۔ جب ہم مختلف مذہبی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہے کہ جب ایک قوم میں اخلاقی بدعنوانیاں پھیل جاتی ہے تو اسکی تباہی اٹل ہوتی ہے۔
جیسے کہ قرآن کریم میں یہ بات صاف صاف کہی گئی ہے کہ جب ایک قوم میں بد اخلاقی پھیل جاتی ہے تو اس قوم کی مادی دولت، معاشی طاقت اور فوجی قوت اسے تباہی سے بچانے کے لیے بےکار بن جاتی ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ معاشی ترقی ایک قوم کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے لیکن قدرت کے قوانین اس کے برعکس ہیں۔ نیک اخلاق، اچھے اصول اور صالح اعمال ایک قوم کی ترقی میں ایک اہم رول ادا کرتے ہیں۔ جب ہم تواریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں قومِ عاد ، قومِ ثمود، قومِ لوط، قومِ نوح جیسے بڑے بڑے اقوام کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے قدرت کے مقرر کردہ اصولوں کی سرکشی کی اور جن کا انجام تباہی اور بربادی تھا۔ جب ہم ان اقوام کے زوال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان اقوام کے زوال کی بنیادی وجہ شہوت پرستی ، حیوانی جبلتیں ، غرور اور گھمنڈ تھا۔ قومِ عاد ایک بہت ہی طاقتور قوم تھی۔ وہ پہاڑوں میں کھدائی کر کے گھر بنانے کا ہنر خوب جانتے تھے۔ انکی طاقت اور ٹیکنالوجی نے اُنہیں بہت مغرور اور نافرمان بنایا اور وہ قدرت کے قوانین کی بغاوت کرنے لگے جس کے نتیجے میں اللہ نے اُن کے شہروں کو ریت کے طوفانوں سے نیست و نابود کر دیا۔
کسی بھی قوم کے زوال کے تین بنیادی اسباب ہوتے ہیں۔ قوم کا زوال تب شروع ہوتا ہے جب اسکے لوگ ظالم بن جاتے ہیں یا مجرم بن جاتے ہیں یا پھر فاسق بن جاتے ہیں۔ جب ایک قوم کے لوگ اور اُسکا حکمران طبقہ ظالم بن جاتا ہے تو وہی سے اُسکا زوال شروع ہوتا ہے۔ ظالم لفظ عربی زبان کے لفظ "ظلم” سے نکلا ہے جسکا مطلب اندھیرا ہے۔ جب ایک قوم میں ظالم حکمران حکومت کرتے ہے تو وہاں کے سماج میں ایک قسم کا اندھیرا رائج ہوتا ہے۔ وہاں سماجی نا انصافی اور ظلم و جبر عام ہوتا ہے۔ آخر میں یہی نا انصافی اور ظلم و جبر اُس قوم کے زوال کا سبب بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مصر کے حکمرانوں کی مثال پیش کی ہے جو بہت ہی ظالم تھے اور جنہیں فراعون کہا جاتا تھا۔ ان حکمرانوں نے اسرائیلی قبیلے کو غلام بنا کے رکھا تھا۔ وہ اُن کے دولت اور وسائل کی لوٹ مار کرتے تھے اور اُن کے ساتھ بہت نا انصافی کرتے تھے۔ وہ اسرائیلی مردوں کا قتل عام کرتے تھے اور اُن کی عورتوں کو جبری قبضے میں رکھ کر اُنکے ساتھ غلط سلوک کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فراعون کی اس ظالم حکومت کا خاتمہ کیا۔
قوموں کے زوال کا دوسرا سبب اس قوم کے لوگوں کا اللہ کے سامنے مجرم بن جانا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی قرآنی کریم میں فرماتا ہے،
"اور ہم نے تم سے پہلے بہت سے گروہوں کو ہلاک کر دیا جب کہ انہوں نے ظلم کیا حالانکہ ان کے پاس ان کے پیغمبر بھی دلائل لے کر آئے اور وہ ایسے کب تھے کہ ایمان لے آتے؟ ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں” ( سورۃ یونس, آیت ۱۳)
مجرم قوم اللہ کے قائم کردہ قوانین کی خلاف ورزی کرتےہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم کی تردید کرتے ہیں اور اپنے غلط اور جھوٹے نظریات رائج کرتے ہیں۔ ان غلط نظریات کی وجہ سے اُن قوموں میں بہت ساری سماجی اور اخلاقی برائیاں پھیل جاتی ہیں اور یہی برائیاں آخر میں اُن کے زوال کا سبب بن جاتی ہیں۔ قومِ عاد، قومِ ثمود کے زوال کا یہی سبب تھا کہ اُن لوگوں نے سماج میں غلط نظریات قائم کیے تھے۔ ترقی یافتہ اور طاقتور ہونے کے باوجود آج ان قوموں کا کہی نام و نشان نہیں ملتا ہے۔ ان اقوام کے زوال سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی کر کے اللہ کی مجرم بن جاتی ہے تو اسکی شان و شوکت، مادی خوشحالی اور طاقت اسکو زوال سے نہیں بچا سکتی ہے۔
زوال پذیر قوم کی تیسری وجہ اس قوم کے لوگوں کا فاسق ہوجانا ہے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ اس قوم کے لوگ اللہ کے مقرر کردہ حدود کا مذاق اُڑاتے ہے اور اللہ کی نافرمانی کرتے ہے۔ یہ نافرمانی اس قوم کے امیر طبقہ میں زیادہ پائی جاتی ہے جو ہر قسم کے سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اخلاقی اور جنسیاتی گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور غریب طبقے کی دولت کو ناجائز طریقوں سے ہڑپ کرتے ہیں۔ ایسا امیر طبقہ بدعنوانیاں کر کے قانون اور انصاف کی دحجھیاں اڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایسے قوم کا حال کچھ اس طرح بیان کرتا ہے۔
"اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو ( کچھ ) حکم دیتے ہیں اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر ( عذاب کی ) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں ” ( سورۃ بنی اسرائیل، آیت ۱۶)
ایسے اقوام جہاں کی حکمرانی بدعنوان اور گنہگار اعلیٰ طبقہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اُنکا انجام تباہی ہوتا ہے۔ انکی کوئی مہارت یا ہنر انکو زوال سے نہیں بچا سکتا ہے۔ اللہ کے حدود کو پار کر کے یہ لوگ اللہ کی خوفناک اور تاریخی آفات کو دعوت دیتے ہے جو انکی تباہی کا سبب بنتے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے اقوام کے زوال کا سبب یہی تھا کہ اُن اقوام کے لوگ جنسی گمراہی، اخلاقی بدکرداری، سماجی اور سیاسی نا انصافی میں مبتلا تھے۔ مختلف اقوام کے عروج و زوال کا تجزیاتی مشاہدہ کر کے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا میں وہی اقوام مضبوط اور طاقتور رہے ہے جنہون نے اللہ کے قوانین کی سختی کے ساتھ پیروی کی ہے اور جونہی کسی قوم نے سرکشی کرنے کی کوشش کی ہے وہی سے اُسکا زوال شروع ہوا ہے۔
مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔