شیخ محمد ابراہیم
پلوامہ کشمیر
عمران بن رشید کا نام شائد آپ سُن چکے ہوں۔ آئے روز اُن کے دینی،ادبی اور علمی مضامین کشمیر کے مختلف اخباروں میں آتے رہتے ہیں۔میرا اُن سے کوئی ذاتی تعلق ہے اور نہ کبھی بالمشافہ اُن سے ملاقات ہوئی ہے لیکن میرا یقین ہے کہ علم کا رشتہ عظیم بھی ہوتا ہے اور مضبوط بھی۔میں اُن کے مضامین پڑھتا ہوں اور ان سے کافی استفادہ کرتاہوں۔وہ دینی مجلہ ”ہفتہ روزہ مسلم“میں مستقل کالم بعنوان ”تکبیرِ مسلسل“ لکھتے ہیں اور چند دیگر روزناموں اکثروبیشتر لکھتے رہتے ہیں،جن میں کشمیر عظمیٰ،تعمیل ارشاداور چٹان وغیرہ شامل ہے۔
ان سطور کو لکھنے کا مقصد محض اپنے قلبی جذبات کا اظہارکرنا ہے اور کچھ نہیں۔میں بحیثیت ایک طالب علم رسائل وجرائد کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں مضمون نویس کی طرف رجوع بھی کرتا ہوں۔اگر آپ میرے گھر آئیں تو آپ کو دکھا دوں کہ میں اپنے گھر میں علمی ذوق کے تحت ایک چھوڑے سے مگر قیمتی کتب خانے کا اہتمام بھی کررکھا ہے۔اخبارات کا مطالعہ تو معمول ہوچکا ہے اچھے مضامین اور مقلہ جات کو محفوظ کرلینا میرا دیرینہ شوق ہے۔اس وقت صرف عمران بن رشید صاحب کا ذکر کرنا مقصود ہے جن کے مضامین کافی شوق سے پڑھتا ہوں اور جہاں محسوس ہوتاہے اُن سے رابطہ بھی کرتا ہوں۔عمران بن رشید قصبہ سوپور سے متصل گاؤں سیر جاگیر سے تعلق رکھتے ہیں،جواں سال ہیں اور سن2012 سے لکھ رہے ہیں۔ادبی مضامین خال خال ہی لکھتے ہیں زیادہ تر دینی موضوعات پر لکھتے ہیں اور وہ بھی ایسے موضوعات جن پر لکھنا اور بولنا اس وقت کا اہم تقاضا ہے۔اُن کے چند مضامین جو مسلم کے ساتھ ساتھ کئی اور اخبارات میں بھی شائع ہوئے اور کافی پسند کئے گئے یہ ہیں ”حرمتِ سود لغوی اور شرعی بحث،امت مسلمہ فرقہ بندی سے نجات کی راہ،رجوع الی القرآن،حب رسولؐ،روزہ اور حصولِ تقو یٰ وغیرہ۔سن2017میں ان کا ایک کتابچہ زیر عنوان ”واقعہ کربلا۔۔۔مختصر تاریخ“منظر عام پر آیا جس کے متعلق ڈاکٹر گلزار احمد غیورؔ نے لکھا ہے ”یہ کتابچہ بڑا ہی فائدے مند ہے جو واقعۂ کربلا کو اس کے تاریخی پس منظر میں سمجھنے کا اچھا موقعہ فراہم کرتا ہے“]ماہ نامہ الحیاۃ /اگست 2017/72[۔
عمران بن رشید کے مضامین تحقیقی اور ٹھوس دلائل پر مبنی ہوتے ہیں وہ اپنے مضامین میں کافی حساس نظر آتے ہیں اور آنا بھی چاہیے کیوں کہ وہ دین پر خامہ فرسائی کرتے ہیں اور وہ بھی ایسے دور میں کہ امت مسلمہ ہزارہا اختلافات کی شکار ہے۔ان کے مضامین کامطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عربی زبان و ادب سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں اور مضامین میں فارسی اقوال و اشعار کا برملا اظہار کرتے ہیں جو فارسی زبان کے تئین اُن کی دلچسپی کو درشاتا ہے بلکہ وہ جہاں مناسب ہو انگریزی اقوال کا بھی استعمال کرتے ہیں۔یہ وہ چیزیں ہیں جو ایک اسکالر میں بالعموم اور دینی اسکالر میں باخصوص ہونی چاہیے۔