الف عاجز اعجاز
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر
جہیز ایک ایسا زہر جو ہر روز ہماری بیٹیوں کو ابدی نیند سُلا دیتا ہے۔ حال ہی میں بانڈی پورہ کی مزمل نامی لڑکی کو جہیز کے نام پر قتل کیا گیا اور کسی کے کان میں جُو تک نہیں رینگی۔ کیا وہ ہماری بیٹی نہیں تھی؟ کیا وہ ملت کی بیٹی نہیں تھی؟ وہ بھی تو ایک عورت تھی۔ وہ عورت جس کو مرد کے برابر حقوق عطا کیے گئے ۔ لیکن آج جہاں بھی نظر ڈالو وہاں پر عورت کو ظلم و جبر کا شکار بنایا جاتا ہے۔ کبھی شوہر اور دیگر رشتہ داروں کے ہاتھوں اُس کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو جانوروں سے بھی بڑھ کر نہ صرف اُس پر ظلم و ستم کرتے ہیں بلکہ معمولی جہیز کی خاطر اُس کو زندہ جلا دیتے ہیں۔ اُس کو زہر دے دیتے ہیں اور کبھی اُس کو اتنا مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ زندگی سے زیادہ موت کو غنیمت سمجھتی ہیں اور خودکشی کر لیتی ہیں۔
آئیں روز کوئی نہ کوئی بیٹی جہیز کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اس سے قبل بھی عائشہ نامی ایک لڑکی نے ویڈیو بنالی تھی اور اُس نے زندگی سے تنگ آکر خودکشی کا اعتراف کرکے خود کو لہروں کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کی ویڈیو دیکھ کر دل چھلنی ہو رہا تھا۔ اس پر ہو رہے ظلم و ستم کے خلاف ہر کوئی غم و غصہ کا اظہار کر رہا تھا اور ملزمین کو پھانسی دینے کی مانگ کر رہا تھا۔ ہر ایک سیاسی لیڈر عوام کو یہ یقین دہانی کرا رہا تھا کہ ملزموں کو سخت سزا دی جائے گی تاکہ پھر سے کوئی عائشہ خودکشی پر مجبور نہ ہوجائیں۔ ہر ایک فردِ بشر چاہے وہ سیاسی لیڈر ہو یا پٹری فروش ایک باپ کی حیثیت سے دل میں چبھن محسوس کر رہا تھا۔ ہر عورت ماں کی حیثیت سے گہرا دکھ اور تکلیف محسوس کر رہی تھی۔ ہر کوئی بیٹیوں کی طرف سے فکر مند نظر آرہا تھا۔ لیکن کیا کوئی اِن سیاسی لیڈران سے پوچھ سکتا ہے کہ مزمل بھی تو ایک انسان تھی۔ کسی کی بہن، کسی کی بیٹی تھی۔ دو بچوں کی ماں تھی۔ اُس کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ پھر حکومت کیوں خاموش ہیں۔ کیوں کسی کا ضمیر نہیں جاگا۔ کیوں کسی نے باپ کی حیثیت سے، کسی نے ماں کی حیثیت سے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی۔ مزمل کی موت پر ہر کوئی خاموش کیوں ہیں؟ کیوں مزمل کے درد کو صرف اُس کے خاندان والوں کا درد سمجھ کر فراموش کر دیا گیا؟ آخر کیوں؟
عائشہ کا معاملہ سامنے آگیا تو ہر کوئی جہیز کی مخالفت کرنے لگا۔ ہر ایک یہ کہنے لگا دیش کی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ظلم و ستم نہیں ہونے دیں گے۔ ہر ایک یہ مطالبہ کر رہا تھا عائشہ کے ملزموں کو عبرت ناک سزا دی جائیں تاکہ سماج سے جہیز کا ناسور ہی ختم ہو جائیں۔ لیکن وہی معاملہ آج کشمیر میں پیش آیا تو مزمل کے گھر والوں کے علاوہ کوئی انصاف نہیں مانگ رہا۔ کوئی جہیز کے خلاف کچھ بول نہیں رہا۔ کوئی اپنی بیٹیوں کے لئے فکر مند نہیں ہورہا۔ ہر ایک خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے اور رسماً افسوس کر رہا ہے لیکن کوئی آواز نہیں اُٹھا رہا۔
عائشہ کے گھر والے بار بار جہیز کی رقم ادا نہیں کر پائیں اور تنگ آکر عائشہ نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لینا مناسب سمجھا۔ لیکن مزمل کے گھر والوں نے تو بیٹی کی خوشی کی خاطر ہر قیمت ادا کی تھی۔ اُن سے جو بھی مطالبہ کیا گیا اُنہوں نے بیٹی کی خوشی کی خاطر پورا کر دیا۔ اُس سب کے باوجود بھی اُس کو قتل کیا گیا۔ آخر کیوں؟ کیوں کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ سب کچھ لینے کے باوجود بھی ہماری بیٹیوں کو قتل کیوں کیا جا رہا ہے؟ بیٹی جہیز نا دے تو قتل، بیٹی جہیز دے تو قتل؟ آخر ہماری بیٹیوں کو بے رحمی سے قتل کیوں کیا جا رہا ہے۔ کوئی اِن سماج کے ٹھیکے داروں سے پوچھتا کیوں نہیں جو ہر وقت یہ کہتے رہتے ہیں بیٹیوں کو صبر کرنا چاہیے۔ ان سے پوچھو کہ ہماری بیٹیاں صبر کے باوجود بھی کیوں قتل ہوتی ہیں؟ کوئی ہماری بیٹیوں کو انصاف دلانے کی یقین دہانی کیوں نہیں کرا رہا ہے۔ کوئی ہماری بیٹیوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کیوں نہیں کرتا۔ کیا ان سماج کے ٹھیکے داروں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ جب ہماری بیٹیوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہوتا ہے تب اِن کے ضمیر کیوں نہیں جھاگ جاتے؟ جب ہماری بیٹیوں کو زخمی کر دیا جاتا ہے تب اِن کے ضمیر کیوں نہیں جھاگ جاتے۔ تب یہ کوئی آواز کیوں نہیں اُٹھاتے؟ سماج کے یہ ٹھیکیدار آواز اُٹھاتے ہیں تو صرف اُس وقت جب کوئی بیٹی خود پر ہو رہے مظالم کے خلاف آواز اُٹھاتی ہیں۔ اُس وقت سماج کے یہ ٹھیکے دار اُس کو زندگی گزارنے کے طور طریقے سکھانے آجاتے ہیں، اُس کو شرعی طور پر شوہر کے ساتھ رینے کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔ اُس کو صبر کا اجر سکھانے آ جاتے ہیں لیکن جب کوئی لڑکی ظلم کی شکار ہو رہی ہوتی ہے تب اُنہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ تب یہ اُس کے شوہر کو شریکِ حیات کے حقوق کیوں نہیں سکھاتے۔ تب یہ اُس کے شوہر کو شرعی دلیلں دے کر بیوی کے ساتھ صلح رحمی کا سلوک کیوں نہیں سکھاتے؟ کوئی ان سے جاکر پوچھ لے کہ آخر کب تک ہماری بیٹیاں قربان ہوتی رہی گی۔ آخر کب تک ہماری بیٹیوں پر ظلم کیا جاتا رہے گا؟ آخر کب تک ہماری بیٹیوں کو قتل کیا جاتا رہے گا؟ آخر ہماری بیٹیوں کو انصاف کیوں نہیں ملتا؟ آخر کب تک ہماری بیٹیاں جہیز کی بھینٹ چڑھتی رہے گی۔ آخر اس ناسور کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے کوئی اقدام کیوں نہیں کیا جاتا۔
آخر کیوں اور کب تک