رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
امجد اپنی ماں کی فرمانبرداری میں کوئی کوتاہی تو نہیں برت رہا تھا لیکن پھر بھی گلشن کا معمول تھا کہ وہ اپنے بیٹے امجد کی شکایت ہر کسی کے سامنے کرتی رہتی تھی ۔۔.
فاطمہ کو امجد سے زیادہ رشتے داروں کے بچے پیارے تھے ۔ جب بھی اسکے بھتیجے ، بھانجے اور نندوں کے بچے گلشن کے گھر آتے تھے وہ بڑی پیار سے انکا استقبال کرتی تھی اور ان سے ہمدردی کے ساتھ پیش آتی تھی ۔۔۔
امجد شرمیلہ طبیعت کا لڑکا تھا اور زیادہ باتیں کرنے کا عادی بھی نہ تھا ۔ ماں باپ سے کبھی کبھار ہی بڑی گفتگو کرتا تھا اور بات کرتے وقت اکثر شرم محسوس کرتا تھا ۔ اس کے برعکس گلشن کے بھتیجے ، بھانجے اور باقی رشتہ داروں کے بچے گلشن اور اسکے خاوند سے بلاججک کے بات کرتے تھے ۔ وہ گلشن اور اسکے خاوند سے ہر دن فون پر بات چیت کرتے تھے اور ان سے خیریت دریافت کرتے تھے ۔ اسی لئے دونوں میاں بیوی کو امجد سے زیادہ رشتے داروں کے بچے پیارے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
نماز مغرب کا وقت ہے ۔۔۔۔۔ گلشن باتھروم میں وضو بنا رہی ہے ۔ اچانک اسکا پیر پھسل گیا اور نیچے گر کر وہ بے ہوش ہوگئی ۔ جب ہسپتال پہنچائی گئی تو ایڈمٹ ہونا پڑا ۔ ڈاکٹروں نے دو پوانٹ خون فور”ا جمع کرنے کے لئے کہا تاکہ اسکا آپریشن جلد کیا جاسکے۔۔۔۔۔۔۔
گلشن کے شوہر قادر میر نے ہر کسی کا فون ملایا جو ان کا حال چال بڑی شائستگی سے پوچھا کرتے تھے اور باتوں سے دونوں میاں بیوی کے دل بھی انہوں نے جیتے تھے ۔ لیکن ایک نے بھی فون اٹھانا گوارا نہ کیا کیونکہ انکو معلوم تھا کہ گلشن کو اس وقت خون کی اشد ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔
امجد کو ہسپتال کا ایک ملازم جو اسکے ساتھ پڑھتا تھا فون پر ماں کے حادثے کے بارے میں با خبر کرتا ہے ۔ امجد جلد ہی ہسپتال پہنچتا ہے اور خون دینے کیلئے یکدم تیار ہو جاتا ہے اور اسکی ماں کا آپریشن کیا جاتا ہے ۔ جونہی گلشن ہوش میں آجاتی ہے تو قادر میر اسکو سارا قصہ سناتا ہے ۔۔۔۔۔
دونوں میاں بیوی اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ اپنا اولاد اپنا ہی ہوتا ہے اور دوسروں پر بھروسہ رکھنا انسان کی نادانی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔