بزرگوں،بیواؤں اور جسمانی طور ناخیز افرادسماج کے حساس لوگوں کیلئے چیلنج ہوتے ہیں جبکہ ان کی بازآبادکاری سرکارکی ذمہ داری ہوتی ہے۔لیکن زمینی سطح پر اس کے بالکل برعکس حالات ہیں۔یہاں سرکاری طور ناتوان افراد،بیواؤں یا بزرگوں کو ایک ہزار روپے بطور ماہانہ مشاعرہ دیاجاتا ہے۔اس مہنگائی کے دور میں ایک ہزار روپے سے حسب معمول ان کی دوائیوں کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔جن کنبوں میں افلاس اور غربت ہوتی ہے ان کنبوں میں بزرگوں،بیواؤں اورناتوان افراد کی پرورش نہ ہوپاتی ہے اور امیر گھرانوں میں کمانے والے افراد خانہ ان کو اپنے لئے بوجھ تصور کرتے ہیں۔
حالانکہ ان کی دیکھ بال کرنا صحت مند افراد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔سماج کے ان کمزور افراد کے تعاون کی آڑ میں بہت سے مفاد پرست لوگمختلف ناموں پرفنڈس وصول کرتے ہیں لیکن مستحقین تک پہنچانے کے بجائے اپنی جھولیاں بھرنے میں ہی محو دکھائی دے رہے ہیں۔البتہ کئی فلاحی تنظیمیں زمینی سطح پر رضاکارانہ طور غریبوں اور مستحقین کی راحت رسانی کیلئے خلوص کے ساتھ کام کرتی ہیں اگرچہ ان کے پاس آمدنی کے محدود ذرائع ہیں۔لیکن ان کاکام ایک تحریک کے طور پر سامنے آتی ہے۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ سرکاری طورمشاہرے بھی انہی لوگوں کو ملتی ہے جن کو اس بارے میں جانکاری حاصل ہوتی ہے۔جبکہ دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر جسمانی طور ناخیز افراد اور غریب عوام کو اس حوالے سے کوئی جانکاری فراہم نہیں ہوتی ہے۔اگر کسی کو اس بارے میں معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں اور وہ اپنا نام سوشل ویلفیئر دفتر میں درج بھی کراتے ہیں لیکن دفتری طوالت اور کرایہ میں آئے روز اضافہ سے ان کیلئے وہ فضول مشق ثابت ہوتی ہے۔
کیونکہ کرایہ یا ددفتری لوازمات پورا کرنے پر ان کو ماہانہ مشاعرے سے زیادہ خرچہ آتا ہے یا ان کو بنکوں کے احاطے میں قطاروں میں بیٹھ کر دن کئی دن گذارے پڑتے ہیں۔ان دشواریوں کا سامنا کرنے کے بعد وہ کئی مہینوں کے مشاعرے حاصل کرسکتے ہیں۔مجموعی طوناتوانوں اور غریب لوگوں کیلئے یہ مشاہرے بھی باعث عذاب ہی ثابت ہوتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے ایک ہزار روپیہ جو بزرگوں،بیواؤں اور ناتوان افراد کو بطور ماہانہ مشاہرہ ملتا ہے وہ اس مہنگائی کے زمانے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔کیونکہ بہت ایسے مستحق لوگ ہیں جن کے فارم دفتر میں ڈالے بھی گئے ہیں لیکن دفتری لوازمات پورا کرنے میں ان بے بس لوگوں کو کافی طوالت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بہت سی مستحق بیوائیں اور بزرگ اس مشاہرے سے بھی محروم ہیں کیونکہ وہ دفتروں کا چکر کاٹنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں۔
ایک ہزارروپیہ حاصل کرنے کیلئے دو سو روپیہ کرایہ پر خرچ کرنا پڑتا ہے اورآٹھ سو روپیہ میں وہ اپنی دوائی بھی نہیں لاسکتے ہیں۔ آج کے اس دور میں ان کمزور طبقوں کو سرکاری طور ایک ہزار روپیہ فراہم کرنا ناکافی ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دور دراز علاقوں میں بنکوں کی سہولیات میسر نہیں ہے اور ان کو کئی کلومیٹر طے کرنے پڑتے ہیں جس پر آدھے پیسے کرایہ پر ہی خرچ ہوتے ہیں اور وہاں قطاروں میں بیٹھ کر کافی دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں۔ بیشتر لوگ اس حوالے سے آج بھی بے خبرہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکار کو ان مفلوک الحال لوگوں کے مشاہرے میں غیر معمولی اضافہ کریں اور محکمہ سماجی بہبود کے متعلقہ افسران دور دراز علاقوں میں اس کے بارے میں جانکاری کیمپ منعقد کریں اورماہانہ مشاعرے ان کے گھروں تک پہنچانے کی کوئی سبیل بنائیں۔اس کے علاوہ سماج کےء ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پسماندہ اور سفید پوش افراد کی امداد کرنے میں اپناکردار ادا کریں۔تاکہ ان کے مشکلات بھی کسی حد تک کم ہوسکیں۔