رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
کتنا پریشان کرتا ہے یہ ۔ سبزی میں نمک زیادہ ، چاے میں نمک کم ، چاول زیادہ نرم اور دوائی اچھی نہیں لاتے ہو ۔ بس ہر روز یہی داستان ہمیں سننا پڑتا ہے ۔ ایسی زندگی سے اسکے لئے موت ہی بہتر تھی ۔ خود بھی پریشان اور گھر کے باقی افراد کو بھی خواہ مخواہ پریشانی میں ڈال دیتا ہے ۔۔۔۔۔
ہائے کتنا تنگ مجھے اور میری دو بیٹیوں کو اس نے پچھلے دو سال سے کیا ہے ۔ یا اللہ کب ہمیں اس ستم سے آزادی مل جائے گی اور اسکی موت واقع ہو جائے ۔۔۔
جبینہ باورچی خانے میں اپنی دو بیٹیوں سے بات کررہی ہے ۔ سبزی کے باغیچے میں پنیری کی آبپاشی کے لئے تینوں ماں بیٹیاں کام پر جارہی ہے ۔ وہ باغیچے میں کام میں مصروف ہی ہیں تو چھوٹی بیٹی کی ایک سہیلی دوڑتے ہوئے یہ خبر سناتی ہے۔۔۔۔۔۔
شائستہ ۔۔ شائستہ ۔۔۔۔۔
کیا بات ہے ؟
تمہارے دادے کی موت واقع ہوئی ہے ۔ جلدی کرو ۔ وہاں بہت لوگ جمع ہوئے ہیں ۔۔۔
تینوں ماں بیٹیاں ننگے پیروں ، کپڑے پھاڑتے ہوئے اور زور زور سے چلاتے ہوئے گھر کی طرف دوڑ رہے ہیں ۔ گھر پہنچ کر تینوں اپنے بال نوچتے ہوئے اور سینوں کو مارتے ہوئے برابر شام کے وقت تک مسلسل روتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے.