الطاف جمیل ندوی
میں کل شب تنہا تھا
اک خواب آیا آنکھوں کو
اک بیٹا ماں کی گود سے
مسلسل چینخ رہا تھا
آئے ماں نہ لگا سینے سے
میرا مقدر ناگہانی موت ہے
اک آواز گونجی آئے ماں
میں مسلم ہوں آئے ماں
میری لاش پڑی آئے ماں
میں خوں میں نہایا آئے مان
ہر سو یہاں لگی ہے آگ
آگ کے شعلے بلند ہوئے
چینخوں کی آواز مانند ہوئی
اک لاشہ پڑا تھا عقابوں میں
جلنے کی بو چھائی ہوئی
محفل میں ناک پر ہاتھ تھا
سب اسے دیکھ رہے تھے
پاس کوئی جانے سے کترائے
سب خوش تھے کہ بات بنی
اک نئی ترقی کی راہ کھلی
عقاب اٹھائے ساتھ تصویریں
جھوم کر جوں ہی گھر بھیج دیں
ہچکی بلند ہوئی آشیاں سے
یہ کون مرا تیرے ہاتھ سے
زہریلا قہقہہ گونجا عقاب کا
سن کہ میں ترقی کرگیا
دور کہیں اک کھیت میں
اک ماں بیٹے کی محبت میں
کچھ تلاش کرکے آئی جو گھر
ہاتھوں سے اس کے گرا ٹھنڈا گلاس
گلا سوکھنے لگا عجب حال ہوا
کہ اس کا نور نظر بچھڑ گیا
عجب کرب تھا ماں کی نگاہ میں
سسک رہی تھی کرب میں
بیٹا یہ کچھ کھلونے لائی ہوں
کس کے ہاتھ تجھ جنت میں دوں
نہاتی تھی جو آرام سے نور نظر
وہی پڑا تھا بے کسی کے ساتھ
سامنے بلکل ماں کی گود کے
کسی کے قدم تھے ہونٹوں پے
ماں نے دیکھا تو سکتے میں
آیا نہ کچھ نظر تو قسم لی
میں اب نہ بیٹے ہی جنوں گی
جس کی انگلیاں قلم لے کر تھراتی تھی
وہی اب پڑا تھا سر راہ ہتھیار میں
قدم جس لرزیدہ ہوا کرتے تھے کھیل میں
اسے قاتل کہا جارہا تھا سر محفل میں
ماں کی ضد تھی میرا بچہ انجاں ہے
نہیں جانتا کہ یہ سب بلا کیا ہے
صدا آئی کہ آئے بکھری آنچل والی
تیرے بچے کی موت ہی ہے ترقی
التجا تھی کہ میرے بچے کے لاشے کو
مجھے دے دو میں سینے سے لگا لوں
مگر دور اک خالی زمین پڑی تھی
زمیں بنجر تھی عقابوں کے درمیاں
اسی مٹی کے نیچے پھینکا جو لاشہ
زمیں نے سینے سے لگایا بن کے ماں
اب تمام
زمیں پر ہریالی ہی ہریالی
زمیں پر خوبصورت گل کھلے
زمیں پر رزق کی فراوانی
خوشیوں کے شادیانوں میں
اک آہ بلند ہوئی آئے ماں
اندھیرا ہے اکیلا ہوں آئے ماں
رستے زخم ہیں کرب ہے ماں
مداوا کیسے ہوگا درد کا ماں
تنہائی سے وحشت ہے ماں
مگر کچھ اطمناں بھی ہے ماں
یہاں سب ایک ہی طرح ہیں ماں
کوئی بچے چھیننے والا نہیں ماں
جمیل کی نگاہوں سے بکھرتے آنسو
ان آنسوؤں کا کیا ہے آئے ماں