گوشت کی قیمتوں میں اچانک غیر معمولی اضافہ کے حوالے سے اعتدال برقرار رکھنے پر قصائیوں کو پابند بنانے کی کوشش کی تو اس کے ردعمل میں قصائیوں نے ظاہری طور اپنی دکانیں بند کیں۔لیکن معیار کو قائم کرنے کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں اٹھائے جارہے ہیں۔سرکاری طور اعتراض کے بعد اگر چہ کئی گوشت کی دکانوں پر مرغوں کے گوشت یا بیف کو دستیاب رکھا گیا تاہم مجموعی طور دکانیں بند پڑی ہوئی ہیں۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ امیرزادے گوشت کھانے کے بغیر رہ نہیں سکتے ہیں اور وہ عادت سے مجبور ہیں اور ان کی عادت کو برقرار رکھنے اور اپنے مفادات کے خاطر چند خود غرض قصاب بلیک مارکیٹ میں مہنگے داموں گوشت کی خریدوفروخت کرنے میں مصروف عمل ہیں. جس پر عام لوگوں کے ساتھ ساتھ قصائیوں و دیگر تجارتی انجمنوں کے ذمہ داران کی اس حرکت کیخلاف سراپا احتجاج ہیں۔جبکہ سرکاری سطح پر ان کیخلاف کاروائی کرنے کی بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں تاہم شاہی کرسیاں پر براجماں افسران بھی مجبور ہیں اور وہ اس کی روکتھام کیلئے سکٹ اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں.
جس کے نتیجے میں بلیک مارکیٹنگ کا سلسلہ جاری ہے۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ گوشت کی قیمتوں کا ہی مسئلہ درپیش نہیں ہے بلکہ گوشت کا معیار لازمی ہے اور اس کی طرف سرکار کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔جبکہ معیار کے مطابق قیمتوں پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ قصائیوں کے پاس معیار ی مال گریڈبندی کے اعتبار سے بھی دستیاب ہوتا تھالیکن وہ معیار نہیں بلکہ ہر مال کی ایک کی ریٹ لگاتے ہیں جس سے ان کا اس طرح فائدہ ہورہا ہے کہ کم قیمت پر خریدا گیا مال بھی وہ معیاری مال کی قیمتوں کے مطابق ہی بیچتے ہیں۔
قصاب معیار ی گوشت کو پرانی قیمتوں پر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ وہ مال کوٹھداروں سے ہی اونچے داموں ملتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھیڑبکریوں کے گوشت کو بازاروں میں بند کرکے بلیک مارکیٹنگ میں فروخت کیا جارہا ہے اور حد تویہ ہے کہ بیف جو ڈھائی سو سے لیکر تین سو تک فروخت کیاجارہا تھا۔اب اس کو 450سے500تک فی کلو پہنچایا گیا۔ معیار کو سمجھنے اور برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔یہاں پہلے پہل متعلقہ افسران ذبح خانوں کا چیک کیا کرتے تھے لیکن اب وہ نہیں ہے۔یہاں گوشت کی قیمتوں کو مسئلہ بناہوا ہے لیکن جو معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے کہ گوشت میں معیار قائم کیا جائے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیاجارہا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ گوشت کے معیار کو دیکھنے کیلئے باضابطہ طور محکمہ جات قائم ہیں لیکن ان کی غفلت شعاری کے نتیجے میں گوشت کے معیار کی جانچ نہیں کی جارہی ہے۔ ریستورانز اور بیکری دکانوں سے سیمپل لے جاتے ہیں لیکن قصابوں اور ذبح خانوں سے سیمپل لینے کا رواج ہی جیسے دفن ہوا ہے۔ جہاں تک باہر سے مال ومویشی آنے کا تعلق ہے تو وہاں سے کئی مقامات پر باضابطہ طور ان کی چیکنگ ہورہی ہے اورماہرین کے مطابق جہاں تک گریڈنگ کا تعلق ہے تو گوشت تین گریڈس پر مبنی ہے۔گریڈ Aمیں ایک سال تک عمر کے جانور،گریڈBمیں ایک سے دو سال تک کی بھیڑبکریاں اورگریڈ Cمیں دو سے چار سال تک کے جانور شامل ہوتے ہیں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ بلیک مارکیٹنگ پر روک لگانے کیلئے متعلقہ محکمہ جات متحرک ہوجائیں اور معیارکو قائم کرتے ہوئے ریٹ لسٹ ترتیب دیا جائے تاکہ گوشت کا یہ مسئلہ حل ہوکر عام لوگ راحت کی سانس لے سکیں گے۔