الطاف جمیل ندوی
زندگی کے رنگ عجیب رنگ و ڈھنگ ہیں کبھی آنسو تو کبھی چہرے پر مسکان رہتا کچھ باقی ہے ہی نہیں شام ہوتے ہی اندھیرا کتنا گہرا چھا جاتا ہے آدمی خوف و ڈر کے سائے میں رہ کر اب تھوڑی ہی صبح کی روشنی کی امید چھوڑ دئے کیونکہ اس کا تجربہ اس کا یقین اسی جانب ہوتا ہے کہ کچھ بھی ہو رات ڈھل جائے گئی. ہاں اندھیرے کے یہ کچھ لمحات گزر تو جائیں ایسے ہی زندگی کی ہر منزل کا حال ہے تھکاوٹ آئی نہیں کہ آپ نے ٹیک لگا کر جسم کو آرام دینے کی سبیل شروع کی. پیاس لگی تو کنویں کی اور دھوڑ لگا دی ایسا ہی ہوتا ہے تب جب ہم تھوڑے سے اداس ہوجائیں تو پاس پڑی سگریٹ کی ڈبیا کی بلائیں لینا ہم شروع کر دیتے ہیں. اب ہم سمجھتے ہیں کہ گر سگریٹ نہیں ملی تو جان نکل جائے گی یا ہم خود کا توازن کھو دیں گئے مطلب کیا آپ یا میں اس قدر کمزور ہیں کہ ایک سگریٹ کے نہ ہونے سے ہماری جان نکل جائے گی .اور پھر ہم اور ہمارا وجود ختم ہوجائے گا اس لئے اس قدر دھواں اڑا دیتے ہیں کہ الامان والحفیظیہ.
ایک نفسیاتی بیماری ہے کہ ہم ہر بات سے نتائج اخذ کرتے رہتے کہ اس بات اس چیز کے نہ ہونے سے یہ ہوگا وہ ہوگا گر انسان مضبوط ارادہ باندھ کر چاہئے تو یقین کریں کسی بھی پہاڑ کی اونچائی کو روندھ سکتا ہے. سمندر کی لہروں پر قابض ہوسکتا ہے اسے رب نے جو قوت ارادی سے نوازا ہے آپ دنیا کی کسی شئے میں یہ وصف نہیں دیکھیں گئے یہ قوت صرف انسان تک ہی محدود ہے بس مضبوط ارادے میں. آپ کی یکسانیت موجود ہو اسی لئے ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ سوائے وہم کے کچھ نہیں کہ آپ سگریٹ کے بنا جینے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے ہیں. یار ارادہ تو باندھ لیںایک داستان یوں بھی ہے میرے ایک انتہائی عزیز اور پیارے دوست ہیں جو اکثر اپنی یادوں کو میرے ساتھ بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں. آپ بھی سنئے اور سوچئے زرا آپ کی نظر میں و عن اس کی یہ باتیں سگریٹ وہ میٹھا زہر ہے جو آہستہ آہستہ آپ کو بزدل کمزور اعصاب کا مالک، نظام ہاضمہ سے محروم آپ کے وقار کو مجروح اور آپ کی خوشیوں میں زہر گول دیتا ہے. اور آپ کو اس کا احساس بھی نہیں ہونے دیتا میں کوئی کہانی کار نہیں بلکہ اس مصیبت کا شکار ہوا. ایک آپ کا بھائی ہوں پر مجھ میں کچھ اوصاف ایسے تھے کہ جنہوں نے مجھے اچانک اس ذلت سے نجات دلا دی .
اب آپ سنیں وہ کہانی جو آپ کو سنانے جارہا ہوں جسے سن کر آپ شاید کوئی فیصلہ کرسکیں والد صاحب کے انتقال کے بعد جب میں ابھی بہت چھوٹا تھا تب ہی گھر سے نکلا جوں ہی بابا کا انتقال ہوگیا اب زندگی کا جو رخ محسوس کیا وہ سخت تھا کٹھن تھا .جہاں بابا کی انگلی کے بجائے انجان لوگوں کا غیض و غضب سہنا پڑتا تھا مزاج میں بچپن سے ہی تیزی اور زیادہ غصہ تھا. میں سمجھتا ہوں جو بھی بچہ اپنے والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتا ہے اس میں ایسی صفات کا پیدا ہونا لازم و ملزوم ہے. چڑ چڑا پن تنہائی میں رہنا غصہ وغیرہ خیر زندگی کی ہر مشکل کو ایسے ویسے گزار تو لیا پر کچھ یاروں کی سنگت کا شاخسانہ عجیب نکلا کہ میں.
سگریٹ نوشی کا حد سے زیادہ عادی ہوگیا اب میری تنہائی اور میری سگریٹ کی ڈبیا کی یوں سمجھو کہ جیسے شادی ہوگی ہو اور میں اس لت میں روز بروز مبتلاء ہوتا گیا کچھ لوگوں نے گرچہ منع کیا پر صرف اس قدر جس قدر وہ کسی بھی بیکس سے اظہار ہمدردی کرنے کی سکت رکھتے ہوں گے . ہاں ایک میری پھوپھیری بہن تھی جس نے اکثر غضب ناک ہوکر منع کیا بس اس کی باتیں جہاں بری محسوس ہوتی تھیں وہی میں انہیں جلد بلانے کا ماہر بنتا جارہا تھا. دن رات بسر ہوتے گئے اور میری بے بسی قابل دید تھی بیکسی کی اور میں سگریٹ کو ہی اپنا ہمدرد سمجھتا رہا پر کبھی کبھی شدت سے احساس ہوتا تھا کہ یار کس مصیبت کی نظر ہوگیا میں، یا کبھی اس بارے میں حساب لگانے بیٹھ جاتا کہ کتنا خرچہ آتا ہے اس مصیبت پر. خیرایک بار ایک رٹائر پروفیسر ملے ہاتھ میں سگریٹ تھی اس نے کہا بیٹا مت پیو میں اس معاملے میں حساس ہوں اس لئے شرمندہ ہوگیا ایسا کئی بار ہوا کہ کسی بزرگ یا استاد نے منع کیا اور میں شرمندہ ہوا پر ایک عجیب مصیبت تھی کہ جوں ہی ان سے دور نکلے تھوڑا سا وقت ہوجاتا تو میں پھر سے پینا شروع کردیتا تھا. وہی مزاج تھا کہ اس کے سوا میرا کوئی ہے ہی نہیں یہ میرا ہمدرد میرا یار میرا ساتھی ہے میں نہیں رہ سکتا اس کے سوا پر جب بھی بازار میں پینا شروع کردیتا تو اکثر نگاہیں جھکا دیتا اس لئے کہ کوئی برس نہ جائے مجھ پر یا کسی کو تکلیف نہ ہو یا گر میں تلاوت کرتا گر احساس ہوتا کہ منہ سے بدبو آرہی ہے تو تلاوت نہیں کرتا آپ یقین کریں یا نہ کریں میں نے کبھی بھی سگریٹ پینے کے بعد بنا وضو کئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لیا یہاں انتہائی زیادہ احتیاط کرتا رہتا تھا.
بس سفر یوں کی جاری تھا کہ آج سے کچھ ماہ پہلے میں اپنے ایک دوست کے ساتھ جارہا تھا گاڑی میں اور میں نے سگریٹ سلگائی پر دوست نے اسی وقت سگریٹ کے نام برا بھلا کہنا شروع کردیا. مجھے بے حد افسوس ہوا کہ یہ تو کبھی مجھ سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتا پر میری برائی نے اسے یہ موقعہ فراہم کیا کہ یہ بھی اپنی بھڑاس نکال رہا ہے بس پھر کیا تھا گھر پہنچتے ہی انتہائی درد اور کرب کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں مدد کے لئے اپنے ہاتھ پھیلا دئے کہ یاربی مجھ اس مصیبت سے نجات دلا دے. اور پھر مسلسل کوشش کے بعد اب اس قدر نفرت ہے اس سے کہ کسی کے پینے کے دوران گر دھواں مجھ تک آجائے تو قے آنا یقینی ہے. اللہ کا فضل ہے یہ سب میں اب جب بھی کسی دوست کو دیکھتا ہوں تو دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش اللہ اسے بھی توفیق عطا فرمائے کہ یہ اس ذلت سے بچ جاتا .پر اک شخص ہے وہ سنتا نہیں ہے میری بات میرے پیارے کیا رکھا ہے ،مجھ کو دیکھ چھوڑنے پر آیا تو چھوڑ دئے نا اب تیرے لئے بھی تمنا ہے کہ تو اس بلا سے خود کو بچا لے سگریٹ کبھی تو نے پی ہی نہیں ہمیشہ سگریٹ تجھے تیری دولت کو تیرے بچوں کی خوشیوں کو ہی ہی لیتا ہے.
بس تجھے محسوس نہیں ہوتا کیونکہ کچھ تعلقات اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ آدمی چاہ کر بھی توڑ نہیں سکتا پر یاد رکھیں جب مسئلہ زندگی کا ہی نہیں بلکہ زندگیوں کا ہو تو مناسب نہیں کہ تعلق بنائے رکھا جائے بلکہ جتنا جلد ممکن ہو اس تعلق سے خود کو دور کیا جائے تاکہ زندگی میں سکون ہی رہ جائے نہ کہ درد و کرب کی اٹھتی ٹھیس پیارے دوستو تحقیق کہتی ہے کہ یہ سگریٹ نوشی آدمی کو پاگل بنانے کے لئے کافی ہے مقدار چاہئے کچھ بھی ہو اس کیکچھ اعداد شمار آپ کی نظر کرتا ہوں. شاید آپ غور و فکر کریںاعداد شمار کے مطابق ضلع سرینگر میں 122 کروڑ روپئے ، اننت ناگ میں 103 کروڑ ، بارہمولہ 98 کروڑ ، کپواڑہ میں 84 کروڑ ، پلوامہ میں 55 کروڑ ، کلگام میں 41 کروڑ ، بانڈی پورہ میں 37 کروڑ ، گاندربل میں 29 کروڑ ، اور شوپیاں میں 26 کروڑ خرچ ہوئے، تاہم وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔
منسٹری آف ہلیتھ اینڈ فیملی ویلفیر کی طرف سے کیے گئے ایک سروے کی بنیاد یہ اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیںایک سال قبل کی سروے رپورٹ جس میں ہر چوتھا فرد سگریٹ نوشی کا شکار ہے بتایا گیا تھا .اور چھ سو کروڑ کے آس پاس سیگریٹ کی خریداری ہوتی ہےایک بار گرچہ حکومت نے اس زہر پر پابندی عائد کی پر جتنا ہم نے سنا کہ عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر جرمانہ عائد کیا جائے گا اسکول کالج کے آس پاس سگریٹ کے کارو بار پر پابندی بھی عائد کی گی پر ایک بار جموں میں ہم جارہے تھے کہ بس اسٹینڈ پر سگریٹ سلگائی ساتھ ہی ایک آدمی نے بتایا بھائی یہاں جرمانہ ہوتا ہے. ایسا کرنے پر تو ہم نے بجھا دی پر اسی وقت اک کارندہ آیا اور پوچھا بھائی لائٹر یا ماچس ہے. اور ہم نے بھی مسکرا کر لائٹر تھما دیا کہ لو جی پھر ساتھ مل کر بیٹھ گئے اور دیر ہنسی مذاق کرتے رہے اور پھر تھک کر ہم ہی چل دئے ورنہ وہ تو کہہ رہے تھ،ے، بھائی آج فرصت ہے جگہ بھی مناسب ہے کیوں نہ تھوڑی دیر اور بیٹھے رہیں پر ہم نے کہا کہ نہیں بھائی اب دیر ہوگی اب تو ہمارے ہاں چھوٹی عمر کے بچے بھی اس لت میں گرفتار ہوگئے ہیں جو اسکول کی یونیفارم پہنے سڑک کے کنارے اکثر دھواں اڑاتے دیکھائی دیتے ہیں.
پھر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مستقبل محفوظ نہیں ہے پیارے گر نسل کو ہی محفوظ نہ رکھ سکے تو یقین کرنا مستقبل بے انتہا تاریک ہوگا جہاں سوائے اندھیرے کے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا.آؤ اپنے دوستوں کو اپنے عزیز و اقارب کو اس ذلت سے نکالنے کی سعی کریں شاید آنے والا کل ہمارے لئے خوبصورت سے بھی خوبصورت بن جائے. چلو عہد کریں اس دھویں سے خود کو بچائیں گئے کیونکہ اس دھویں پر اکثر میرا معصوم مجھ سے کہتا تھا بابا گر آپ مرگئے تو میں کہاں جاؤں گا کیونکہ مجھ آپ کے سوا ہر کسی سے ڈر لگتا ہے کیا آپ کا بچہ بھی ایسا ہی کہتا ہے جب دھواں اس کے پاس سے گزر جاتا ہے.