سردیوں سے چھٹکارا پانے کے بعد زمینداری کا سیزن شروع ہوجاتا ہے اور زمیندار سیزن کی قدر کرتے ہوئے زمین میں بیچ بونے یا شجرکاری یا دواپاشی کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی روزی روٹی کیلئے ایک اہم سبب ہوتا ہے جب زمیندار اس سیزن میں خون پسینہ ایک کرتا ہے تب ہی وہ خود کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے اور اس کی ہمت ومحنت میں یہ دم ہوتا ہے کہ وہ کئی مہینوں میں محنت کرتا ہے اور پھر کئی مہینے آرام کی زندگی بسر کرتا ہے۔
لیکن پیدوار کو بڑھانے کیلئے سرکاری سطح پر جو دعوے کئے جارہے ہیں وہ سراب اور جھوٹ ثابت ہورہے ہیں کیونکہ جدید تقاضوں کے حوالے سے زمینداروں کو نہ ہی جانکاری فراہم کی جاتی ہے اور نہ ہی ایسے بیچ یا ادویات فراہم کئے جاتے ہیں جو پیداوار میں اضافہ کرنے کے کام آتے۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ موسم میں تبدیلی رونما ہونے کے فوراًبعد میوہ باغات میں دوا چھڑکانے کا عمل شروع ہوگا۔ میوہ جات کو بیماریوں سے بچانے کیلئے جراثیم کش ادویات کا استعمال کیا جارہا ہے لیکن غیر معیاری ادویات کے حوالے سے میوہ صنعت سے وابستہ تمام افراد پریشان حال اور فکرمند ہیں۔کیونکہ گذشتہ کئی برسوں سے مسلسل میوہ جات میں ایسی بیماریاں بشمول سکیب پھوٹ پڑتی ہے جس سے یہاں کی میوہ صنعت بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میوہ صنعت یہاں کی اقتصادی بہتری کیلئے ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اسی صنعت کی بدولت یہاں کے لوگ ترقی کی جانب گامزن ہوئے تھے۔
کیونکہ میوہ کی خرید وفروخت سے حاصل ہونے والا پیسہ ہی زیادہ تربازاروں میں گردش کرتاتھا اور ہر طبقہ کے لوگوں کا کاروبار بھی اسی پر منحصر تھالیکن چند برسوں سے یہ اہم صنعت زوال پذیر ہورہی ہے۔اس کے بہت سارے محرکات ہیں لیکن میوہ جات کی خرابی کی بڑی وجہ غیر معیاری ادویات کا استعمال ہے۔دیکھاجارہا ہے کہ ایسی بیماریاں میوہ جات میں اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں جو آجکل پائی جاتی ہیں۔یہ زمیندار اور میوہ صنعت سے وابستہ افراد یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ کہیں محکمہ ہاٹی کلچر اوردواساز ایجنسیوں کے درمیان یہ کوئی ساز باز تو نہیں ہے کیونکہ محکمہ باغبانی کے افسران اس حوالے سے خاموش تماشائی ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماہرین کے مشوروں اور ہدایات پر عمل در آمد کرتے ہوئے ذمیندار اور باغ مالکان قرضہ لیکر دواپاشی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ادویات کا استعمال بیماروں سے میوہ چھٹکارا دلانے کیلئے کی جاتی ہے.
لیکن دیکھنے میں باربار آتا ہے کہ ان ادویات کے استعمال سے میوہ جات کے ساتھ ساتھ میوہ درختان میں بھی ایسی بیماریاں لگتی ہیں جس سے یہ صنعت تباہی کی جانب گامزن ہوگئی ہے۔اب نیا سال شروع ہوگیا ہے اور دوا پاشی کا سیزن قریب تر ہے اور اس صنعت سے وابستہ افراد اس حولے سے پریشان حال ہیں کہ وہ دواپاشی کریں یا نہ کریں۔اس سلسلے ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر اس صنعت کو بچانے کیلئے فوری طور دوا ساز کمپنیوں کو تنبیع کی جائے اور غیر معیاری ادویات کی خریدوفروخت اور استعمال پر مکمل طور پابندی عائد کی جائے۔ان کمپنیوں کو سر بمہر کیاجائے جن کو غیر معیاری ادویات کی ترسیل یا فروخت کرنے کی پاداش میں پایا جائے تاکہ ہماری اس اہم صنعت کا تحفظ یقینی بن سکے۔