معراج النبی ﷺتاریخِ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز، انوکھا اور نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقلِ ناقص آج بھی حیران و ششدر ہے۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ سفرِ معراج کیوں طے ہوا؟ عقل حیرت کی تصویر بن جاتی ہے،انسانی عقل اس کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسانِ کامل آسمان کی بلندیاں طے کرتا ہوا لامکاں کی وسعتوں تک کیسے پرواز کر سکتا ہے اور وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جسے دیکھنے کی عام انسانی نظر میں تاب نہیں۔
اس لئے حدود و قیود کے پابند لوگ اس بے مثال سفرِ معراج کے عروج و ارتقاء پر انگشت بدنداں ہیں۔لیکن اللہ کی وحدانیت اور جاہ جلال کے سامنے انسانی عقل وخرد محدود ہے۔واقعہ معراج پر انسان کوسر خم تسلیم کرنا ہے کیونکہ اس کا تذکرہ واضح اور عیاں وبیان ہے۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں معراج خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
تاریخِ انبیاء کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی معجزات سے نوازا۔ ہر نبی کو اپنے عہد، اپنے زمانے اور اپنے علاقے کے حوالے سے معجزات سے نوازا تاکہ ان کی حقانیت ہر فردِ بشر پر آشکار ہو اور وہ ایمان کی دولت سے سرفراز کیا جائے۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آج کے سائنسی دور کے اِرتقاء اور کائناتی انکشافات کے اس دور میں بھی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خواب میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کی اور جب میں واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا تو اسے مِن و عن تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ خواب کی بات ہے اور خواب میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ دعویٰ خواب کے حوالے سے کرتے تو ابولہب کو اس کی حقانیت سے انکار ہوتا اور نہ ابوجہل کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ عالمِ بیداری میں کیا گیا کہ آسمانوں اور زمینوں کی سیر میں نے عالمِ بیداری میں کی، اس لئے عقلِ عیار اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئی۔
اب چونکہ جاگتے ہوئے یہ سب کچھ ہونا انسانی فہم و اِدراک سے بالاتر تھا لہٰذا اس معجزہ کو اہلِ ایمان کے لئے ان کے ایمانوں کی آزمائش قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:انسان ظاہر و باطن کا پیکرِ دلنشیں ہے۔ داخل سے خارج تک اور خارج سے داخل تک کا سفر اَن گِنَت مراحل کا امین ہوتا ہے۔ باطن ایک شفاف آئینہ ہے جس میں ظاہر کی دنیا کا ہر عکس جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس طرح ظاہر بھی من کی دنیا کا عکاس ہے۔
اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ معراج یک جہتی نہ تھی بلکہ تاجدارِ کائنات ﷺکو عطا ہونے والی معراج تمام لطائف کی بھی معراج تھی۔ وہ ایسے کہ ہر لطیفے کا مقام اپنی جگہ سے اٹھ کر اوپر کے مقام پر چلا گیا یعنی جسمِ اطہر جو نفس کا مظہر تھا جب مقامِ قاب قوسین پر پہنچا تو وہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اطہر تھا لیکن جسم کے مقام سے اٹھ مرتب قلب پر پہنچ گیا تھا۔ یہ بات اگر سمجھ میں آ جائے تو یہ خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ پاک کا دیدار سر کی آنکھوں سے کیسے کیا۔ اصل بات یوں ہے کہ اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں۔