ملک و قوم کی ترقی و تعمیر میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بچوں کو جتنی اچھی تعلیم و تربیت دی جائے گی۔ بڑے ہوکر وہ اتنا ہی بھر پور کردار ادا کرسکیں گے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ابتدائی زندگی میں تین چیزیں اس کے سا تھ چلتی ہیں۔ اسکی نشونما، ترقی اور تعلیم۔ کیونکہ یہ بچے معاشرے اور عالمِ انسانیت کا مستقبل ہیں۔جس طرح بچہ کا جسم بڑھتا ہے ساتھ ہی ساتھ اسکی ذہنی، جذباتی، نفسیاتی، معاشرتی، روحانی اور ثقافتی نشونما بھی ہوتی ہے۔ یہ سارے گوشے ایک چھوٹی سی اکائی میں پروان چڑھتے ہیں۔بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ وہ تربیت ہے جو انہیں اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے۔
اس تربیت کا اہم ترین پہلو اولاد کے ساتھ والدین بالخصوص ماں کے طرزِ عمل سے منسلک ہے۔ ماں باپ کی تربیت اور دیگر عوامل کی مدد سے بچوں کی نشوونم کو فروغ دینے سے نونہالوں کی صحیح تربیت ممکن ہے۔ ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرنا اور زندگی کے اصولوں سے واقف کرنا والدین کیلئے ناگزیرہے۔ اخلاقی تربیت بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے تو بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بچپن سے ہی انہیں سچائی، امانت داری، بہادری، احسان، بزرگوں کی عزت۔ پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاق و اوصاف کا حامل بنانے کیلئے ایک لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ صرف تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا کوئی اچھا طریقہ نہیں۔ والدین کو چاہیے کہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں۔ بچوں کو سخت کوشش اور محنت کا عادی بنانے کے لئے انہیں ایک درمیانے معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے۔ تاکہ عام انسان جیسی پرْ مشقت زندگی کا تجربہ حاصل کر سکیں۔بچوں کو ورزش کا عادی بنایا جائے۔ جسمانی، بیماریوں اور جائزضروریات کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔
بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا۔ ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں ایک دوسرے پر فوقیت دینا غیر اخلاقی طرز عمل ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بچہ ماں کی گود میں ایک یونیورسٹی میں داخل ہوتا ہے۔ اس سے بچے کی پرورش ہوتی ہے۔ بچہ جسمانی،روحانی اور ذہنی طور پر بڑا ہو جاتا ہے پھر معاشرتی، سماجی اور دوسرے تمام اقدار اسمیں ہوتی ہے اسطرح بچے پر سب سے پہلے جو ماحول کا اثر ہوتا ہے وہ گھر کا ماحول ہے۔ اس لئے ہمیں گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنا ہوگا۔ کیونکہ گھر بچوں کا پہلا درسگاہ ہے۔
گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ کیساسلوک کیا جاتا ہے گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ کیسی باتیں کی جاتی ہے اس کا اثر براہ راست بچے پر ہی مرتب ہوتا ہے اسلئے بڑوں کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ شائستہ الفاظ اور طریقہ کار استعمال کریں۔اس کے علاوہ اچھی تعلیم و تربیت کیلئے اس اسکول میں داخلہ کرایا جائے جہاں اخلاقی اقدار کی پاسداری اوراساتذہ کی صحیح تربیت دستیاب ہو۔یہاں بات قابل ذکر ہے کہ جس قوم کے بچے نہ ہنر مند ہو نہ خودارہواس قوم سے تاریخ کے معمار میسر نہیں ہونگے۔ بچہ کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ اور مستقبل ہوتے ہیں۔ اس ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ بہترین معاشرہ بھی فراہم کیا جائے۔ بچے ہی ہمارے کل کے معمار ہیں۔ان کی بہتر تعمیر کے انفرادی اور اجتماعی کوششیں جاری رکھنا ہرسماج کے ہر فرد کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے۔