وادی کشمیر میں اگر چہ حالات گذشتہ تین دہائیوں سے حالات خراب ہیں لیکن کچھ برسوں سے یہاں کی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں اقتصادی بحران پیدا ہوااور ہر کوئی انسان کافی پریشانیوں میں مبتلا ہوا ہے۔کیونکہ بہتر اقتصادیات سے معمولات زندگی بہتر طریقے سے ہی نبھائی جاسکتی ہے لیکن جب مالی حالت ابتر ہو تو انسان کی زندگی ان کیلئے اجیرن بن جاتی ہے۔
غریب ہو یا امیر روز مرہ کی زندگی گذارنے کیلئے ہرایک محنت شاقہ سے کام کرنا پڑتا ہے اور آجکل لوگ پہلے سے زیادہ کام کرنے میں مصروف ہیں۔لیکن مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی ہے۔لوگوں کے آمدنی کے ذرایعے قلیل ہیں لیکن خرچات کافی ہیں۔
8ماہ کے بعد نامساعد حالات میں اگر چہ مارچ 2021میں حالات میں قدرے بہتری آنے لگی تھی۔تاہم عالمگیر وبائی بیماری کوروناوائرس نے وادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور سرکاری سطح پر لوگوں کی جانیں محفوظ رکھنے کیلئے لاک ڈاون کا نفاذ عمل میں لایاگیا جس سے کاروبار کے تئیں رہی سہی کسر پوری ہوگی اورکوروناوائرس کی مہاماری سے دیر تک معمولات زندگی درہم برہم رہی۔اس کے بعد لوگوں کویقین ہوا تھا کہ کوروناوائرس کے پھیلاؤ میں کمی ہونے سے کاروباری سرگرمیوں میں بہتری آسکتی ہے۔لیکن اس کے بعد بھی دکاندار دکانات کی دہلیز پر خریداروں کی تلاش میں چشم براہ ہوتے ہیں۔
بازاروں میں کافی گہماگہمی دیکھی جاتی ہے لیکن دکانوں سے خریداری کرنے کا جیسے رواج ہی ختم ہوا۔اگر چہ خریدار دکانوں میں جاتے بھی ہیں لیکن خریدوفروخت کے معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقتصادی بدحالی کے بنیادی محرکات اور کاروبار کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے دکاندارور کاروباری افرادبھی شش پنچ میں پڑے ہوئے ہیں ۔کیونکہ دکانیں کھلی ہیں۔لوگوں کی گہماگہمی بھی برابر ہے لیکن خریداری کہیں نہیں ہے۔اس کے بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ لوگوں کے پاس خریداری کی سکت ہی باقی نہیں ہے۔حالانکہ اب دکاندارماضی کی طرح زیادہ منافع کے بجائے 10فیصدی منافع پر ہی اکتفا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی خریدار چیزیں خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔جبکہ تجارت کی ٹرینڈ ہی تبدیل ہوچکی ہے کیونکہ دکاندار اب نو نقد نو تیرہ ادھار کا معاملے پر ہی گامزن ہے۔ادھار دینے کی بات ہی ختم ہوئی ہے۔کیونکہ مجموعی طور کاروبار بُری طرح متاثر ہے اور تاجر بھی قرضوں تلے دب چکے ہیں۔
یہاں یہ بات گورطلب ہے کہ ایک طرف کاروباری سرگرمیاں متاثر ہیں اور اقتصادی بدحالی نے ہر طرف اپنا جال بچھایا ہے تو دوسری طرف سرکاری سطح پر ٹیکسز کی بھرمار ہے۔بجلی،پانی کے فیس میں غیر معمولی اضافہ اور مصنوعات یعنی پیٹرول وڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ سے کرایہ میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ بہت ساری چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر آئے روز یہاں کے لوگ اقتصادی بدحالی کے شکار ہورہے
ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام محرکات کو مدنظر رکھتے ہوئے سرکار کوئی ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دے تاکہ کاروباری سرگرمیاں دوبارہ پٹری پر آسکیں گے اور اقتصادی بحالی بھی یقینی بن سکے گئی۔