تحریر: خشبو بنت جاوید
طالبہ معلم کھنہ بل انت ناگ
جب کبھی غیرتِ انسان کا سوال آتا ہے
بنتِ زہرا تیرے پردے کا خیال آتا ہے
اسلام کا ایک اعزاز اور امتیاز یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے۔ اس میں دین و دنیا کی جامعیت بھی ہے اور زمانے اور زندگی کے ہر شعبے کیلئے مکمل رہنمائی بھی۔ اس کا جس طرح ایک نظامِ عبادت ہے اسی طرح ایک نظامِ حیات اور دستورُ العمل بھی ہے۔ اس نظامِ حیات میں سیاست ومعیشت سے لے کر تہذیب و تمدن اور معاشرت تک سارے ہی معاملات کیلئے ہدایات و تعلیمات دی گئی ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی سے اسلام کو نکال باہر کیا ہے اور غیروں کی نقالی اور اُنکی جاہلی رسم و رواجوں کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر ارشاد کیا ہے کہ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ، أبو داؤد، کتاب اللباس ۳۵۱۲۔
اب نقالی کی یہ عادت اتنی پختہ ہوگئی ہے کہ اسے گناہ سمجھنا بھی چھوڑ دیا گیا ہے اور یوں ہماری خوئے غلامی نہایت مستحکم ہوگئی ہے۔ اسکی تفصیلات بہت وسیع بھی ہیں اور نہایت المناک بھی۔ جسکے اظہار کی یہاں گُنجائش نہیں۔
اسلام نے انسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے جو پاکیزہ تعلیمات دی ہیں وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اس نے انسانی معاشرے کو اخلاقی بےراہروی سے بچانے کیلئے سد ذرائع کی تعلیم دی ہے۔ سد ذرائع کا مطلب ہے بُرائی کا باعث بننے والی باتوں کی روک تھام۔ سد ذرائع کے قاعدے کی رو سے اسلام نے عورتوں کو غیر محرم مردوں کے سامنے بےحجابانہ آنے سے منع کیا ہے۔ اسلام کا یہ حکم ایک سلیمُ الفطرت آدمی کی غیرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عورت ہمیشہ ظلم و ستم کا شکار رہی۔ ہندوستان میں لڑکی کی پیدائش کو نحوست سمجھا جاتا تھا۔ عرب بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے، یورپ عورت کو انسان ہی نہیں سمجھتا تھا۔ مصر میں مختلف مقاصد کیلئے جوان لڑکیوں کو بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا۔ اسلام سچائی کی وہ سب سے پہلی آواز ہے جو عورت کی حمایت میں بُلند ہوئی۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے مُقدس رشتوں کے تاج پہنائے۔ خواتین کے انسانی، سماجی، عائلی اور وراثتی حقوق مقرر کئے اور پردے کا حصار کھینچ کر عورت کی عزت وعظمت کی حفاظت کا ابدی انتظام کر دیا۔ مگر افسوس آج مغربی تہذیب کی چمک دمک سے متاثر ہو کر ہمارے ماڈرن دانشور پردے کے خلاف طرح طرح کی گُمراہ کُن باتیں کر رہے ہیں۔ اگر ہم غور کریں گے تو ہمیں مشاہدہ ہو جائے گا کہ بڑے بڑے گناہ چھوڑ کر، کفر و شرک جیسے گناہ نظر انداز کرکے شیطان بنی نوع انسان کو بےلباس کرنے پر کتنا حریص ہے۔ چنانچہ اس نے ایسی چال چلی جس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ وہ عورت کو بےلباس کر دے۔ شیطان نے کمال مکروفریب کے ساتھ ایسی چال چلی کہ وہ ہمارے والدین کو بےلباس کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب چونکہ اُنکی اولاد کو بھی وہ بےلباس دیکھنا چاہتا ہے اسلئے ہمارے ﷲتعالیٰ نے کمال شفقت فرماتے ہوئے اس کی خُفیہ سازش فاش کر دی اور ہمیں اسکے مکروفریب سے آگاہ کر دیا:
يَٰبَنِىٓ ءَادَمَ لَا يَفۡتِنَنَّكُمُ ٱلشَّيۡطَٰنُ كَمَآ أَخۡرَجَ أَبَوَيۡكُم مِّنَ ٱلۡجَنَّةِ يَنزِعُ عَنۡهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوۡءَٰتِهِمَآۗ إِنَّهُۥ يَرَىٰكُمۡ هُوَ وَقَبِيلُهُۥ مِنۡ حَيۡثُ لَا تَرَوۡنَهُمۡۗ إِنَّا جَعَلۡنَا ٱلشَّيَٰطِينَ أَوۡلِيَآءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤۡمِنُونَ
اے اولادِ آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا کہ اُس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے باہر کر دیا ایسی حالت میں کہ اُن کا لباس بھی اُتروا دیا تاکہ وہ اُن کو اُن کی شرم گاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم اُن کو نہیں دیکھتے ہو۔ ہم نے شیطانوں کو اُن ہی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
ان صراحتوں اور وضاحتوں کے باوجود بھی انسان انہی شیطانی فتنوں میں پڑا بلکہ اُلجھا ہوا نظر آرہا ہے۔ کافر نِت نئے انداز سے مسلمانوں کو ننگا کر رہے ہیں۔ کبھی تعلیم کے نام پر گھروں سے لڑکیوں کو نکال کر اور مخلوط انداز سے پڑھا کر عریانی اور فحاشی کو عام کر رہے ہیں۔ کبھی سیر و تفریح کے نام پر بے حیائی پھیلا رہے ہیں اور اب تو عریاں لڑکیوں والے پوسٹر اور سائن بورڈ جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ عورت کا لباس مختصر ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس میں ہم یورپ کی عورت کو بھی مات کر گئے ہیں۔ ہم مسلمان اس ظاہری تشخص سے بھی عاری ہوگئے ہیں اور یوں بقولِ علامہ اقبال رحمه الله، ہمارا حال یہ ہوگیا ہے
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدُن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اسلئے میں نے ضرورت سمجھی کہ لباس کے مسئلے کی اہمیت اور کافروں کی مشابہت کی شناعت اور قباحت واضح کرکے لباس کے بارے میں اسلامی ہدایات و تعلیمات اُجاگر کی جائیں۔
لباس کا معنی و مفہوم :-
لباس عربی زبان کا لفظ ہے اور اسکی جمع اَلْبِسَه ہے۔ لباس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
اَلْلِّبَاسُ ھُوَ الَّذِیْ یُوْضَعُ عَلیَ الْجِسْمِ لِلسَّتْرِ
لباس وہ چیز ہے جو ستر پوشی کیلئے جسم پر رکھی جاتی ہے۔ ( تفسیر الشعراوی ٤٨٢/١)
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ لفظ لباس کا مادہ لَبَسَ ہے۔ اگر یہ باب لَبَسَ یَلْبَسُ سے ہو تو اسکا معنی ہوگا ” کپڑا پہننا ” لیکن اگر یہ باب لَبَسَ یَلْبِسُ سے ہو تو اسکا معنی "مشتبہ کر دینا”، ” خلط ملط کر دینا ” ہوگا۔
لباس کا حکم:-
حکم کے اعتبار سے اہلِ علم نے لباس کی پانچ اقسام ذکر فرمائی ہے :
فرض: اتنا لباس پہننا فرض ہے جو ستر ڈھانپ لے۔
مستحب: زیب و زینت کی غرض سے عمدہ لباس پہننا بالخصوص جمعہ و عیدین کیلئے مستحب ہے۔
جائز : جس لباس کی شریعت نے نہ تو ترغیب دلائی ہے اور نہ ہی اس سے منع کیا ہے، اُسے پہننا جائز ہے۔
مکروہ: ایسا عمدہ و قیمتی لباس جو تکبر کا ذریعہ بنے مکروہ ہے۔
حرام: تکبر کی غرض سے پہنا جانے والا لباس، اسی طرح مردوں کیلئے ریشمی لباس وغیرہ حرام ہے۔
لباس کی غرض و غایت:-
اس وقت دنیائےِ عالم میں لوگ روزانہ کسی نہ کسی لباس میں ملبوس ہو کر ہی گھر سے باہر نکلتے ہیں (خواہ وہ عریاں ہو یا ساتر)۔ لباس کے بہت سے غرض و غایت ہے یہاں میں کچھ بُنیادی مقاصد ذکر کروں گی:
۱) لباس کا بنیادی اور اولین مقصد یہ ہے کہ لباس کے ذریعے اپنے قابلِ ستر اعضاء کو ڈھانکا جائے۔ مرد بھی اپنا ستر ڈھانکیں اور عورتیں بھی اور یہ عمل اُسی طرح بجا لائیں جیسے اُنہیں کتاب و سُنت میں تعلیم دی گئی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسا لباس قطعاً ممنوع اور غیر صحیح ہے جو ساتر نہ ہو۔
۲) ثانیاً لباس کا غرض اسکا باعثِ زینت ہونا ہے۔ یعنی لباس اس غرض سے بھی پہنا جا سکتا ہے کہ انسان اس سے زیب و زینت اور حُسن و جمال حاصل کرے اور واقعتاً لباس اس دوسری غرض پر بھی پوری اُترتا ہے۔ اور اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ لباس انسان کے جسمانی عیوب و نقائص کو چُھپا کر اسے بلکل سلیمُ البدن ظاہر کرتا ہے۔
۳) لباس کا ایک اور مقصد گرمی و سردی جیسے موسمی اثرات سے بچاؤ اور دورانِ جنگ دشمن کے وار سے حفاظت بھی ہے۔ جیسا کہ ﷲتعالیٰ سورۂ النحل/۸۱ میں بیان فرماتے ہے
وَجَعَلَ لَكُمۡ سَرَٰبِيلَ تَقِيكُمُ ٱلۡحَرَّ وَسَرَٰبِيلَ تَقِيكُم بَأۡسَكُمۡۚ
اسی نے تمہارے لئے کُرتے بنائے ہیں جو تمہیں گرمی سے بچائیں اور ایسے کُرتے بھی جو تمہیں لڑائی کے وقت کام آئیں۔
پردہ پاکدامنی کی علامت:
پردہ جہاں ﷲتعالیٰ اور رسول ﷲﷺ کی اطاعت ہے وہاں عورت کی عفت و پاکدامنی کی علامت و شعار بھی ہے، چنانچہ ﷲ مالک ارض و سماء کا فرمان ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزۡوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ يُدۡنِينَ عَلَيۡهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّۚ ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَن يُعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے۔
ﷲتعالیٰ نے ذَٰلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَن يُعۡرَفۡنَ کے الفاظِ مبارک سے یہ اِشارہ کیا ہے کہ یہ پردے کی برکت سے عفت مآب خواتین لگیں گی۔ فَلَا يُؤۡذَيۡنَۗ پھر فاسق لوگ انہیں تکلیف نہیں دیں گے۔ گویا خواتین کی عصمت بچانے کی علامت و شعار پردہ بتلایا گیا ہے۔
اسلام نے چادر و بُرقع پوشی کے باوجود عورت کو آزاد گردانا ہے۔ جبکہ مغرب کے فکر و فلسفے کے مارے لوگ اندازہِ تمسخر اس بُرقعے کو کالی قبر اور خیمہ قرار دیتے ہیں۔ یہ بات ان کی ذہنی مُفلسی، فسطائیت، رجعت اور بےغیرتی کی علامت ہے۔
سچ ہے فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ہر ایک کی فکر اس کی عقل کے مطابق ہوتی ہے۔ کُلُّ إِنَاءٍ یَتَرَشَّحُ بِمَا فِیْهِ برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی باہر نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ جو غیرت و حمیت سے خالی ہیں اور ﷲتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو مذاق و طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہی کے گھرانوں کی لڑکیاں بےحیائی کے شعلوں کو ہوا دیتی ہیں۔
بے پردگی/ تبرُج:
وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ
تبرُج کے معنی ہیں نمایاں ہونا اور نمائش کرنا۔ یہاں اس سے عورتوں کا بناؤ سنگھار کرکے غیر مردوں کے سامنے خود کو نمایاں کرنے کا عمل مراد ہے۔ اس عمل کا مقصد عورت کی اس خواہش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا کہ لوگوں کی نگاہیں اُسکی طرف اُٹھیں اور وہ اُنکی توجیہات کا مرکز بنے۔ آجکل بھی لوگ اپنے تمدن اور طرزِ معاشرت کی کھوکھلی بناوٹ پر بڑھ بڑھ کر فخر کرتے ہے اور وہ فرعون کی طرح اسے مثالی کلچر بِطَرِيۡقَتِكُمُ الۡمُثۡلٰى(طه) قرار دیتے ہے لیکن قرآن نے ان طریقوں کو جاہلیت کی علامت قرار دیا ہے اور مسلمان خواتین کو ہدایت کی ہے کہ وہ خود کو اپنے گھروں تک محدود رکھیں اور سج سنور کر باہر نکلنے کے طرزِ فکر پر مکمل پابندی کی مہر لگائی ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے بے پردگی حرام ہے اور حرام کا باعث بنتی ہے۔ اسکی حُرمت پر اجماعِ اُمت ہے۔
علامہ صنعانی (منحة الغفار على ضوء النهار: 2012,2011/4) کے حاشیہ پر لکھتے ہیں:
وَقَدْ أجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى تَحْرِیْمِ التَّبَرُّجِ
مسلمانوں کی بےپردگی کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔
عہدِ نبوی ﷺ سے لے کر 1924ء میں دولتِ عثمانیہ کے اختتام تک اجماع عملی رہا کہ عورتیں بخوبی پردہ کرتی تھیں۔ اپنے وجود اور اپنی زینت کو پوشیدہ رکھتی تھیں۔ حتیٰ کہ اس عملی و عملی اجماع کو سامنے رکھ کر بعض علماء نے قصائد بھی لکھے۔ ایک قصیدے کا مطلع ہے:
مَنَعَ السُّفُوْرَ کِتَبُنَا وَنَبِیُّنَا فَاسْتَنْطِیِقي الْآثَارَ والْآیَاتِ
ہماری کتاب قرآن مجید اور ہمارے نبی ﷺ نے بےپردگی سے منع فرمایا ہے۔ پس تو ذرا آیاتِ قرآنی و احادیث کا مطالعہ تو کر معاملہ واضح ہوجائےگا۔
بے پردگی کی قسمیں:
تبرُج موسع: یعنی بےلگام بےپردگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنی زینت اور بدن کے بعض حصے غیر محرموں کے سامنے ظاہر کرے، کیونکہ تبرُج کے معنی ہیں: ظاہر کرنا، اسی لیے ستاروں کو بروج السماء، یعنی آسمان کے برج کہتے ہیں کیونکہ وہ ظاہر ہوتے ہیں اور وہ عورت جو بے پردہ ہوتی ہے۔ وہ تعلقات اور نظروں کا دائرہ وسیع کر دیتی ہے۔ اسی کو قرآن نے قدیم جہالت کہہ کر ممنوع قرار دیا ہے۔ ارشادِ بری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ
قدیم جاہلیت کی طرح اپنا بناؤ سنگھار ظاہر مت کرو۔
تبرُج مقیّد: یعنی محدود بے پردگی۔ اسے سفور بھی کہتے ہیں۔ سفور السفر سے ماخوذ ہے۔ اس کے معنی ہے پردہ ہٹانا۔ چنانچہ صرف چہرہ کُھلا رکھنے والی عورت کو سافرہ کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر عورت اپنے چہرے سے کپڑا ہٹائے تو وہ سافرہ بھی ہوگی اور مُتبرجہ بھی ہوگی۔
تبرج زناکاری کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ افسوس! آج کل ذی شعور گھرانے کی خواتین بھی وبائے تبرُج میں مبتلا ہیں۔ یعنی
۱- جب عورت بلکل پردہ نہ کرے اور بدن کے کچھ حصے یعنی چہرہ، ہاتھ، قدم وغیرہ غیر محرموں کے سامنے ظاہر کرے تو یہ بھی تبرُج یعنی بے پردگی ہے۔
۲- جب عورت بُرقع یا چادر کے نیچے پہنے ہوئے کپڑے ظاہر کرے تو یہ بھی تبرُج کی علامت ہے۔ اگر عورت نے پتلون کی طرح تنگ لباس پہن رکھا ہو تو یہ اور زیادہ فتنے کا سبب ہوگا۔
۳- جب عورت وقار سے چلنے کی بجائے ٹھمک ٹھمک کر چلے تو یہ بھی تبرُج کی علامت ہے۔
۴- جب عورت اپنے پاؤں زمین پر مار کر چلے تاکہ چُھپی ہوئی زینت ظاہر ہو، مثلاً پائل وغیرہ کی جھنکار سُنائی دے تو ایسی زینت کا اظہار شہوت بھڑکانے کا باعث ہے۔
۵- جب عورت غیر محرم سے بے باکی اور لطافت و بناوٹ سے گفتگو کرے تو یہ بھی تبرُج کی نشانیوں میں سے ہے۔
چہرے اور ہاتھوں کو باپردہ رکھنے کے بارے میں ائمہ کے اقوال:
اسلام نے عزت کی حفاظت کیلئے پردہ لازم قرار دیا ہے لیکن اسکے برعکس یورپی علوم کے سحر میں مبتلا ماڈرن دانشور چہرہ اور ہاتھ کُھلے رکھنے بلکہ بلکل بے پردگی کے حق میں بے بنیاد دلائل دیتے ہیں تاکہ ان سے متاثر ہو کر عام لوگ پردے کا تکلّف ہی ترک کر دیں۔
۱) ائمہ حنفیہ کے اقوال:
فقہائےِ احناف کی رائے کے مطابق عورت کیلئے اجنبی یا غیر محرم مردوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں۔
امام ابو بکر جصاص کہتے ہیں: نوجوان عورت کو حکم ہے کہ اجنبی مرد سے چہرے کا پردہ کرے اور گھر سے نکلے تو مکمل طور پر باپردہ ہو، تاکہ بدکردار لوگ اسکی طمع نہ کرے۔ (أحکام القرآن:458/3)
امام طحاوی نے کہا: نوجوان عورت کو اجنبی مردوں کے بیچ چہرہ بے پردہ کرنے سے منع کیا جائے گا۔ (ردّ المختار:271/1)
مفتی اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع جو ایک حنفی عالم و فقیہ ہیں۔ انہوں نے لکھا: مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و فقہاء اور جمہور اُمت اس امر پر متفق ہے کہ نوجوان عورتوں کیلئے اجنبی مردوں کے درمیان چہرے اور ہاتھوں کو کُھلا رکھنا جائز نہیں۔ بڑی بوڑھی عورتیں اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ (المرأة المسلمة:ص 202)
۲) ائمہ مالکیہ کے اقوال:
مالکی فقہاء کی رائے بھی یہی ہے کہ عورت کیلئے اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کُھلا رکھنا جائز نہیں کہ چہرہ کھولنا فتنے اور فساد کا باعث ہو سکتا ہے۔
قاضی ابو بکر ابن العربی اور قرطبی جنکا شمار مالکی فقہاء ہوتا ہے، کہتے ہیں "عورت کیلئے چہرہ کھولنا ضرورت کے وقت ہی جائز ہے۔ ضرورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسکے خلاف مقدمہ دائر ہو اور اسے چہرہ کھول کر صفائی دینی پڑے یا بیماری کی حالت میں طبیب کو چہرہ کھول کر دکھانا پڑے”. (أحکام القرآن 1578/3، والجامع لأحکام القرآن 277/14)
مالکیہ کے جلیلُ القدر امام ابن عبد البر نے بیان کیا ہے کہ اس امر پر علمائےِ اُمت کا اجماع ہے کہ عورت کیلئے چہرہ کا پردہ واجب ہے۔
امام آبی نے بیان کیا ہے: ابن مرزوق نے نہایت واضح الفاظ میں بتایا ہے کہ مالکیہ کے مشہور نقطۂ نظر کے مطابق فتنے کا ڈر ہو تو عورت کیلئے چہرے اور ہاتھوں کو چُھپانا ضروری ہے۔ (جوأھر الإکلیل:41/1)
۳) ائمہ شوافع کے اقوال:
فقہائےِ شوافع کا خیال ہے کہ فتنے کا خدشہ ہو یا نہ ہو عورت کیلئے غیر محرم کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں۔
امامُ الحرمین جوینی کا کہنا ہے: مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ خواتین کو ننگے منہ گھر سے باہر آنے سے منع کیا جائے گا اسلئے کہ نظر فتنے کا باعث ہو سکتی ہے۔ (روضة الطالبين:24/7، وبجیرمی علی الخطیب:315/3)
شافعی امام ابن رسلان نے کہا:
مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ عورتوں کو ننگا منہ باہر نکلنے سے روکا جائے گا، خاص کر جبکہ بدکرداروں کی کثرت ہو۔ (عون المعبود: 162/11)
امام موزعی نے کہا:
مسلمانوں کے تمام علاقوں میں آج تک لوگوں کا طرزِ عمل رہا ہے کہ وہ بڑی بوڑھی کو تو چہرہ کُھلا رکھنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن نوجوان عورت کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ اسے اچھا نہیں جانتے۔ ( تیسیر البیان الأحکام القرآن:1001/2)
۴) ائمہ حنابلہ کے اقوال:
فقہائےِ حنابلہ کی رائے بھی یہی ہے کہ عورت کیلئے اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھولنا جائز نہیں۔
امام احمد کا قول ہے:
عورت گھر سے نکلے تو بدن کا کوئی بھی حصہ ظاہر نہ کرے۔ (الفروع:601/1)
خلاصہِ کلام یہ ہے کہ فطرتاً جو چیز قیمتی ہوتی ہے اسکو خُفیہ اور پوشیدہ جگہ رکھا جاتا ہے جیسا کہ ریل میں انسان اپنے پیسوں کو اندر سے بھی اندر والی جیب میں چُھپا کر رکھتا ہے بلکل اسی طرح عورت کو بھی چُھپا کر رکھنا چاہیے کہ غیرت کا تقاضہ یہی ہے کہ عورت پردہ میں رہے۔
عورت کے پردے کا بیان سات آیات میں آیا ہے اور ستر(۷۰) سے زیادہ احادیث میں قولاً و عملاً پردے کا حکم آیا ہے۔ اتنی کثرت سے پردہ کے بارے میں احادیث کا وارد ہونا اسکی اہمیت پر بین دلیل ہے۔ مگر افسوس آج کے معاشرے میں یہ بات کافی عام ہے کہ پردہ ترقی میں حائل ہوتا ہے۔ لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ اس طرح کی سوچ دین بیزار، دین سے دوری، اسلامی احکامات سے ناواقفیت اور ﷲ کے خوف سے عاری ہونے کا عملی ثبوت ہے۔
آج جو طبقہ فیشن کے نام پر بےحیائی کا لبادہ اوڑھ کر سرکشی و بغاوت پر اُتر آیا ہے، وہ گناہ کو گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ چونکہ اگر کوئی گناہ کو گناہ سمجھے اسکو راہِ راست پر واپس لانے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن جس کے نزدیک گناہ بھی گناہ نہ رہ جائے، اُس سے صراطِ مستقیم کی طرف واپسی کی توقع کرنا بہت بعید ہے۔
مسلمہ اُمہ کے ہر اُس شخص کا فرضِ منصبی ہے جس کی نگاہوں میں شرم و حیا اور عصمت کی کوئی قدر و قیمت ہے وہ اپنی بہن، بیٹیوں کو بے مقصد بے پردہ باہر نکلنے سے روکیں اور اُنکو یہ تابناک حقیقیت باور کراۓ کہ عورتوں کی پناہ گاہ تاریخ میں اگر کہی پائی گئی تو وہ صرف دامنِ اسلام میں ہے۔ اسلام ہی اِس بھولی بھالی مخلوق یعنی عورت کا از ابتداء تا انتہا حامی ہے۔
میری ﷲ پاک پروردگار سے دعا ہے کہ وہ اپنے آخری نبی سراج منیرا پیغمبر محمد ﷺ کے اُمت کی بیٹیوں کو پردہ جیسی عظمت کی قدر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور حکمِ ربانی پر عمل پیرا ہونے کی سعادت عطا فرمائے۔
اللھم أحفظ بنات المسلمین من الفتن
اللھم اجعل نساء المسلمین صالحات تقیات
قانتات تائبات وحبب لھن الستر والحجاب
واغرس فیھن الحیاء والعفاف۔