ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول،رحم خاں دربھنگہ
موبائل:9431414808
خطوط نگاری کی روایت کافی قدیم ہے۔ اسلام سے قبل بھی اس کا رواج تھا۔ حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کے خطوط جو اشاعت دین کے لئے لکھے گئے وہ آج بھی موجود ہے۔ حضور ﷺ نے کئی حکمرانوں کو دین کی دعوت کے لئے خطوط لکھوائے۔ وہ تمام خطوط سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ عہد خلافت راشدہ، عہد امیہ اور عہد عباسی میں بھی اس طرح کے خطوط کی روایت ملتی ہے۔ ہندوستان میں عہد مغلیہ میں رقعات نگاری کا باضابطہ شعبہ قائم تھا۔ اس کے علاوہ بھی خطوط لکھے جاتے رہے ہیں۔
خطوط کئی قسم کے ہوسکتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی، شاہی خطوط، ادبی خطوط وغیرہ۔ ہر قسم کے خطوط مختلف زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اردو زبان میں بھی خطوط نگاری کی مستحکم روایت موجود ہے۔ غالب کے خطوط کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ ان کے خطوط کے دو مجموعے ”عود ہندی“ اور ”اردوئے معلی“اردو ادب کے شاہکار ہیں۔ اسی طرح خطوط سرسید، خطوط نواب محسن الملک، خطوط محمد حسین آزاد، خطوط ڈپٹی نذیر احمد، خطوط علامہ شبلی نعمانی وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے وہ خطوط جو ”غبار خاطر“ میں ہیں ان خطوط کو بھی بڑی ادبی حیثیت حاصل ہے۔
خطوط کے اصول اور اسلوب متعین نہیں ہیں۔ خصوصاً نجی خطوط سادہ اسلوب میں لکھے جاتے تھے۔ یہ مکتوب نگار کے مزاج اور اسلوب نگارش پر منحصر کرتا ہے۔ خطوط سے مکتوب نگار کی شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم کسی مصنف کے خطوط سے ان کے خیالات اور دلی کیفیات و جذبات سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ بات جو عام طور پر نہیں کہی جاتی ہے وہ خطوط میں بے تکلف لکھے جاتے ہیں۔ خطوط نگاری میں مکتوب نگار اور مکتوب الیہ دونوں کی شخصیت اہم ہوتی ہے۔ لیکن عام طور پر مکتوب الیہ کی شخصیت زیادہ اہم ہوتی ہے اس لئے بعض موقعوں پر مکتوب نگار مکتوب الیہ کی شخصیت کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ادبی خطوط نگاری میں اس کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر امام اعظم ایک متحرک قلمکار ہیں۔ اب تک ان کی دو درجن کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کے فن اور کارناموں پر کئی قلمکاروں نے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ نثری اور شعری دونوں اصناف میں ان کی کتابیں ہیں۔ تصنیفات کے سلسلہ میں بہت جلدی میں نہیں رہتے۔ بلکہ وہ Slow and steady wins the raceکے مصداق اپنا کام انجام دیتے ہیں۔
ڈاکٹر امام اعظم کی پیش نظر کتاب ”چٹھی آئی ہے“ (مشاہیر کے خطوط ڈاکٹر امام اعظم کے نام) حالیہ مہینوں میں منظر عام پر آئی ہیں جسے شاہد اقبال(کولکاتا، مغربی بنگال) نے ترتیب دیا ہے۔ اس کتاب کے ترتیب دینے میں مرتب نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا۔ انہوں نے اپنا مقدمہ ۴۴/ صفحات پر تحریر کیا ہے جس میں خطوط نگاری کی مختصر تاریخ، ڈاکٹر امام اعظم، ان کی تصانیف، ان کی ادارت میں شائع ہونے والا رسالہ ”تمثیل نو“ اور اس کتاب کی غرض و غایت کو اجاگر کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ ”چٹھی آئی ہے“ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مرتب نے اپنے مقدمہ میں لکھا ہے:
”چٹھی آئی ہے“ کے خطوط بیسویں صدی کے اواخر سے لے کر موجودہ منظر نامے کا احاطہ کرتے ہوئے اس دورانئے کی ادبی سرگرمیوں کو نہ صرف عوام الناس کے سامنے لاتے ہیں بلکہ ڈاکٹر امام اعظم کی شخصیت اور ادبی قدومرتبے کے تعین میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر امام اعظم کے نام ہزاروں کی تعداد میں خطوط لکھے گئے جن کی کمپوزنگ ہوچکی تھی لیکن ضخامت کے سبب ان میں سے بہت سارے خطوط کو اس کتاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ پھر کسی موقع پر وہ فاضل خطوط بھی منظر عام پر لائے جائیں گے۔ اس کتاب میں شامل خطوط کے حوالے سے زیر نظر مقدمہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مکتوب نگاری کی روایت پر گفتگو کی گئی ہے جب کہ دوسرے حصے میں ڈاکٹر امام اعظم کی شخصیت اور تخلیقات کے حوالے سے لکھے گئے خطوط کو زیر بحث لایا گیا ہے۔“
”چٹھی آئی ہے“ میں ۴۳۴/ شخصیتوں کے تقریباً ۰۰۴۱/ سو سے زائد خطوط شامل اشاعت ہیں۔ ڈاکٹر امام اعظم کے نام تحریر کئے گئے خطوط کا دائرہ صرف موضوعاتی اعتبار سے ہی وسیع نہیں ہے بلکہ جغرافیائی اعتبار سے بھی بہت وسیع ہے۔ اس کتاب میں بیرون ملک کے مکتوب نگاروں کی لمبی فہرست ہے جن میں چند اہم نام احسان سہگل(ہالینڈ)، ڈاکٹر احمد سہیل (امریکہ)، ارشد اقبال آرش (اٹلی)، اشرف گل (کیلی فورنیہ)، افروز عالم (کویت)، امان خاں دل (نیورک)، انور شیخ (لندن)، پروفیسر ایس ایم یونس شرر (نیویارک)، پروین شیر (کینیڈا)، ڈاکٹر حنیف ترین (سعودی عربیہ)، صوفیہ انجم تاج (امریکہ)، گلشن کھنہ (لندن)، محمد سالم (امریکہ)، ڈاکٹر محمد ظفیر الدین (امریکہ)، مظفر مہدی (امریکہ)، مقصود الہیٰ شیخ (انگلینڈ) نقشبند قمر نقوی بخاری (امریکہ)، ہلال غزالی (سعودی عربیہ)، یوسف امام (عرب امارات) وغیرہ ہیں۔
ہندوستان کی کئی نامور ہستیوں کے خطوط اس کتاب میں شامل ہیں۔ ان مایہ ناز ہستیوں میں ابراہیم اشک، ابوالکلام قاسمی، ابوذر ہاشمی، احمد سجاد، اختر کاظمی، ارتضی کریم، ارمان نجمی، اعجاز علی ارشد، اقبال انصاری، انوارالحسن وسطوی، انور سدید، آفتاب احمد آفاقی، پریمی رومانی، ثوبان فاروقی، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر جمال اویسی، حامدی کاشمیری، حسن امام درد، حقانی القاسمی، حلیم صابر، خالد عبادی، خلیق الزماں نصرت، خلیق انجم، راشد انور راشد، رؤف خیر، پروفیسر رئیس انور، سید منظر امام، شارب ردولوی، پروفیسر شاکرخلیق، مولانا شبنم کمالی، شمس الرحمن فاروقی، شمس جلیلی، شموئل احمد، شمیم فاروقی، شمیم قاسمی، شوکت حیات، آچاریہ شوکت خلیل، شہپر رسول، طلحہ رضوی برق، عبدالقوی دسنوی، گوپی چند نارنگ، قمر اعظم ہاشمی، قمر رئیس، مشرف عالم ذوقی، پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی، ممتاز احمد خاں، پروفیسر منصور عمر، ناوک حمزہ پوری، نظیر صدیقی وغیرہ کے خطوط توجہ طلب ہیں۔
٭پیش نظر کتاب ”چٹھی آئی ہے“ میں تمام خطوط کو حرف تہجی کے اعتبار سے سجایا گیا ہے۔ اس طرح کتاب میں پہلا خط ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی کا ہے۔ وہ اپنے خط میں لکھتے ہیں:
”ہمارے تعلقات کی عمر تو بہت مختصر ہے، شمار کیجئے تو تین ساڑھے تین سال سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہوگا مگر یہ مختصر عرصہ بھی ایسا سنہرا ہے کہ اس پر سینکڑوں سال کی یادیں قربان کی جاسکتی ہیں۔ دربھنگہ کی یادوں، ادبی مباحثوں اور ملاقاتوں کا ایک سلسلہ ہے، جس کو سمیٹنے کے لیے دفتر چاہئے۔ دربھنگہ تو ادبی معاملے میں اتنا ایڈوانسڈ ہے کہ ریاست کے بڑے بڑے شہر اس کے سامنے پانی بھریں گے۔“
٭”تمثیل نو“ کے حوالے سے ایک عمدہ خط ڈاکٹر احمد حسن دانش کا ہے۔ سلام و پیام کے بعد موصوف لکھتے ہیں:
”تمثیل نو“ کا تازہ شمارہ ۱۱۔۲۱/ زیر نظر ہے۔ سادہ ٹائٹل پیج دیدہ زیب ہے۔ مشمولات میں معمولات کے علاوہ تین گوشے۔ اردو کا اہمعصر ادب ۵۸۹۱ کے بعد، سید منظر امام: ایک مطالعہ اور گوشہئ خورشید اکبر میں اہم مطالعے پیش کئے ہیں۔ تینوں مخصوص گوشوں میں اچھے اچھے معلوماتی مقالے شامل ہیں۔ خصوصاً مناظر عاشق ہرگانوی کے مقالے۔ ”سید منظر امام کی تخلیقی انفرادیت“ اور ”خورشید اکبر کی غزلوں میں عصری رجحان کی عکاسی“ خوب ہیں۔“
٭۶۲/ اگست ۰۱۰۲ء کو حاجی پور سے جناب انوارالحسن وسطوی صاحب ایک خط میں ڈاکٹر امام اعظم صاحب کو ان کے والد محترم کے انتقال پر صبر کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”آپ کے والد گرامی محترم فاروقی صاحب بہت خوش قسمت تھے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں انہیں اپنے پاس بلالیا۔ وہ بھی مغفرت کے عشرہ میں۔ ایسی موت کی تمنا تو بہت لوگ کرتے ہیں لیکن یہ موقع اور یہ سعادت سب کی قسمت میں کہاں۔ یقینا اللہ تعالیٰ کو ان کی نیکی پسند آئی ہے تب ہی انہیں یہ اعزاز نصیب ہوا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ جل شانہٗ ان کی نیکیوں کو شرف قبولیت بخشے، انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین“
٭۳/ دسمبر ۹۱۰۲ء کو پروفیسر آفتاب اشرف اپنے مخصوص انداز میں ان کی تصنیفات کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”خیرت سے ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ آپ کو ہمیشہ تازہ دم رکھے اور قلم کی جولانی کبھی تعب و تھکن کا شکار نہ ہو۔ گیسوئے تنقید، گیسوئے تحریر اور گیسوئے اسلوب کے بعد اب گیسوئے افکار میرے مطالعہ کی میز پر موجود ہے۔ اردوصحافت اور اردو تنقید کی دنیا میں آپ محتاج تعارف نہیں ہیں، آسمان اور ادب پر آپ کے قلم کا آفتاب کبھی ادھر چمکتا ہے تو کبھی ادھر۔ اقلیم سخن کے باشندوں کو آپ کی حکمرانی کا انکار کیسے ہوسکتا ہے۔ طرز بیان اور اسلوب نگارہ کی وجہ سے آپ کی پہچان لازوال رہے گی۔ ”گیسوئے افکار“ کے مطالعے سے آپ کی تنقیدی بصیرت اور وسعت مطالعہ کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے تمام مشمولات ادبی دنیا میں تابندہ و پائندہ رہیں گے۔“
٭ڈاکٹر پریمی رومانی نے ۷۱/ جولائی ۷۹۹۱ء کو ایک خط تحریر کیا۔ یہ خط جناب مظہر امام کے حوالے سے تھا۔ انہوں نے اس خط میں لکھا ہے:
”میں آج کل جناب مظہر امام کی شخصیت اور فن پر تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی لکھ رہا ہوں۔ موصوف کے ساتھ میرے گہرے مراسم رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مجھ پر شفقت کا ہاتھ رکھا ہے۔ ان کے ایک خط سے پتہ چلا کہ آپ نے ”مظہر امام کی تخلیقات کا تنقیدی مطالعہ“ کے موضوع پر کام کیا ہے اور آپ کو ڈگری بھی تفویض ہوچکی ہے۔ میری اُور سے مبارکباد قبول کریں۔ اس بات سے از حدخوشی ہوئی کہ یہ تحقیقی مقالہ حال ہی میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ آپ ”نصف ملاقات“ کے نام سے ان کے خطوط کا مجموعہ بھی مرتب کر چکے ہیں۔ کیا آپ یہ دو کتابیں مجھے بھجوانے کی زحمت کریں گے۔“
٭پروفیسر ثوبان فاروقی ۳۱/ مارچ ۲۰۰۲ء کو ڈاکٹر امام اعظم کے خط میں دو پیراگراف پروفیسر طرزی کی ”رفتگاں و قائماں“ کے سلسلے میں لکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ مختلف نوعیت کی بات ہے اس لئے اس خط کے ایک پیراگراف کو یہاں نقل کرنا لازمی سمجھتا ہوں:
”دربھنگہ کی منظوم ادبی تاریخ“ عطا عابدی سے منگواکر پڑ ھ رہا ہوں۔ فردوسی نے ”پارسی“ میں عجم کو زندہ کیا، طرزی نے ”ریختے“ میں دربھنگہ کو دوام بنادیا۔ وہ بھی اس طرح کہ رفتگاں کو قائماں اور قائماں کو دائماں بنا دینے کا بھی ہنر اہل دنیا کو دکھا دیا۔ میں اسے ایک ایسے آئینے سے تعبیر کرتا ہوں جس میں ہر شخص ماضی و حال کے مانوس و غیر مانوس چہروں کا بیک وقت دیدار بھی کر سکتا ہے۔ طرزی نے ناموں کے انتخاب میں بڑا ”جمہوری“ انداز اپنا یا ہے۔ انہوں نے وہ بھی چن لیے ہیں جنہیں کوئی دوسرا ”حاشیہئ باغ“ میں بھی جگہ نہ دیتا۔ یہ طرزی کا درویشانہ مزاج ہے جس کی خسروانہ فیاضی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے۔“
٭ڈاکٹر جمال اویسی ایک نامور نقاد اور شاعر ہیں۔ ۶۱/ فروری ۵۰۰۲ء کو ڈاکٹر امام اعظم کے نام انہوں نے ایک خط لکھا۔ ذاتی نوعیت کے اس خط میں انہوں نے ڈاکٹر امام اعظم کو دبی زبان میں کچھ نیک مشوروں سے نوازا ہے۔ اس طرح یہ خط کافی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ اس خط کے کچھ حصے ملاحظہ کریں:
”خدا آپ کو مزید ترقیاں عطا فرمائے۔ آمین۔ دبے لفظوں میں اور اشارتاً یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ بحیثیت شاعر وادیب میں نے محسوس کیا ہے کہ دربھنگہ کی سرزمین ماضی کے مقابلے میں زیادہ فعال و متحرک ہوگئی ہے اور یہاں کے لکھنے والے بین الاقوامی سطح پر جانے جاتے ہیں۔ میں اب صرف محبت اور خلوص میں یقین رکھتا ہوں۔ جس طرح آپ کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا معترف ہوں، اسی طرح مشتاق صاحب (پروفیسر مشتاق احمد) کی صلاحیتوں کا بھی قائل ہوں۔ کاش آپ دونوں پہلے کی طرح محبت سے ملتے۔ آدمی کا پیغام صرف محبت ہونا چاہئے۔“
٭زبیر رضوی صاحب ”ہندوستانی فلمیں اور اردو“ جو ڈاکٹر امام اعظم کی ایک بہترین تخلیق ہے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آپ کی مرتب کردہ کتاب ”ہندوستانی فلمیں اور اردو“ موصول ہوئی۔ اس میں زیادہ تر مضامین وہ ہیں جو فلم اور اردوکے حوالے سے لکھے گئے ہیں لیکن اگر اظہار کے اس میڈیم کے بارے میں کوئی سو برسوں کی فلم سازی پر پیشہ ورانہ فکر وعمل کی باتیں پڑھنا چاہے تو اس نوعیت کے مضامین کی کمی ضرور محسوس ہوگی۔ پھر بھی یہ کوشش میرے نزدیک قابل قدر ہے۔
٭فراز حامدی معروف رسالہ ”تمثیل نو“کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”تمثیل نو“ کا تازہ شمارہ موصول ہوا۔ ا س سے پیشتر بھی ایک دو شمارے ملے ہیں۔ شکر گزار ہوں۔ جلد ہی اپنی نثری یا شعری تخلیقات ارسال کروں گا۔ براہ کرم آپ اپنی ایک عدد حمد اور ایک عدد نعت پاک ارسال فرمائیں۔ بزم شعور ادب، جے پور کے اولین مجلہ کی زیبائش کے لئے درکار ہے۔
٭ہماچل پردیش سے کرشن کمار طور لکھتے ہیں کہ ”تمثیل نو“ کا تازہ شمارہ مجھے پندرہ روز قبل دستیاب ہوا تھا۔ شکریہ۔ آپ نے اس میں میری غزل بھی شریک اشاعت کی ہے۔ اس کے لیے مزید شکریہ۔ میں نے رسالہ کی دیگر مشمولات کے علاوہ خطوط کے کالم میں پروفیسر طلحہ رضوی برق کے ارشادات بھی پڑے جو انہوں نے گزشتہ شمارے میں چھپی میری غزل کے ایک شعر پر فرمائے ہیں۔
٭ڈاکٹر امام اعظم کی کتاب ”گیسوئے تحریر“ کے حوالے سے کوثر صدیقی (بھوپال) لکھتے ہیں کہ ”گیسوئے تحریر موصول ہوئی۔ شکریہ! مضامین پڑھے۔ کچھ بغور اور کچھ سرسری نظر سے۔ ہر جگہ آ پ کے قلم کی روشنائی دل و دماغ کو روشن کرتی ہوئی نظر آئی۔ آپ کا علم اور مطالعہ بہت وسیع نظر آیا۔ کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
٭معروف نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ آپ کا خط اور تحریریں موصول ہوئیں۔ نظم بہت اچھی ہے، مضمون بھی اچھے ہیں۔ شکر گزار ہوں۔ انٹرویو کے سوالات میں نے الگ رکھ لئے ہیں۔ ان میں بستار بہت ہے۔ جلد میں باہر جانے والا ہوں، ایک ماہ کے بعد واپسی ہوگی۔ جب آپ دہلی آئیں گے انٹرویو کا کام ہوجائے گا۔ خاطر جمع رکھیں۔
٭سابق نائب صدر جمہوریہ ہند، ڈاکٹر محمد حامد انصاری لکھتے ہیں:Thank you so much for sending me your book "Fatmi Committee Report: Tajziyati Motalea” presenting an analytical study on the Fatmi Committee Report.
٭ہندوستانی فلم سے تعلق رکھنے والے ندا فاضلی لکھتے ہیں کہ دربھنگہ کے مختصر قیام کے دوران آپ سے مختصراً ملا بھی ہوں۔ آپ ایسے دور دراز علاقہ میں ادبی سطح پر کافی فعال ہیں۔ پرچہ مجھے اچھا لگا۔ مواد اور اس کے انتخاب میں آپ کی محنت نمایاں ہے۔
مختصر طور پر ”چٹھی آئی کے مطالعہ“ سے ہندوستان اور بیرون ملک کے ادیب و شعراء کے خطوط جو ڈاکٹر امام اعظم کے نام تحریر کئے ہیں سے ان کی ادبی، صحافتی سرگرمیوں کا پتہ چلتا ہے۔ فیس بک، انسٹا گرام، ای میل، وہاٹس ایپ اور میسنجر کے اس دور میں ڈاکٹر امام اعظم نے خطوط کے اس مجموعہ کو قارئین کے سامنے پیش کرکے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کتاب کی پذیرائی لمبے عرصے تک ہوگی اور ڈاکٹر امام اعظم ساتھ ہی کتاب کے مرتب شاہد اقبال لمبے طویل مدتوں تک اردو شائقین کے درمیان یاد کئے جائیں گے۔