از قلم: عاقب شاہین
چودہ سو سالہ تاریخ میں اسلام کے سیاسی نظام،اس میں ہونے والی diversion ، اس کے اسباب اور عوامل پر لکھی جانے والی بہترین کتاب ہے۔۔۔۔۔ بہت سے سکالر عالم دین اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ 14 صدیوں میں اس موضوع پر ایسی شاہکار علمی تخلیق نہیں ہوئی۔
ہر مسلمان کو غیر جانبدار اور unoccupied ہو کر ٹھنڈے دماغ سےضرور پڑھنی چاہیئے اور جائزہ لینا چاہیئے کہ اسلامی حکومت قرآن اور حدیث کی روشنی میں کیسی ہوتی ہے اور بادشاہت کیا چیز ہے۔۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد دونوں کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔
اس حساس معاملے میں ہماری عوام کافی الجھن کا شکار ہے۔
خلیفہ کے انتخاب کے اصول کیا ہیں اور تقرری کے بعد ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟
وہ کون سی چیز ہے جس کی بنیاد پر ہم کسی حکومت کو "خلافت” قرار دے سکتے ہیں وغیرہ۔۔۔۔ اس کی ایک مثال تو سلطنت عثمانیہ کی ہے ، جسے مسلمان اسلام کا محافظ سمجھتے تھے اور اس کے ٹوٹنے پر مزاحمت کی، اس کے لیے جدوجہد کی۔۔۔۔مودودی صاحب نے اس قسم کی حکومتوں کے بارے میں اپنے واضح مؤقف کا اعلان کیا اور خلافت راشدہ کے بعد معرض وجود میں آنے والوں کو مطلق العنانیت یا آمریت (اردو میں مولوکیت) قرار دیا ۔۔۔۔ کیونکہ نہ تو خلافت کی تشکیل کے اصول اپنائے گئے تھے اور نہ ہی دورانِ اقتدار ان اصولوں پر عمل کیا گیا تھا۔
کتاب کے بعد کے ایک حصے میں انہوں نے اسلامی فقہ کے قیام کے لئے امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کی خدمات کو بیان کیا۔۔۔۔ #خلافت_اور_جمہوریت کے مابین الجھے ہوئے لوگوں کو میں یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔۔۔۔۔ اردو زبان میں لکھی گئی زیادہ تر دینی کتابوں کے برعکس یہ بہت آسان ہے۔اس کتاب کو ہر وہ شخص ضرور پڑھے جو اسلامی ریاست کے صحیح معنی اور اس کے مضمرات اور اس کے عروج و زوال کی ایک مختصر تاریخ کو سمجھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ ایک تاریخ کی کتاب ہے ، جس میں مولانا نے صحیح اور مستند واقعات بیان کیے ہیں۔۔۔ اِس کتاب میں احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے ، یہ صرف تاریخ کی کتاب ہی نہیں بلکہ قرآن و حدیث کے دلائل سے بھی بھری ہوئی ہے اور اہلِ سنت والجماعت کا مجموعی عقیدہ بھی یہی ہے۔۔۔یہ پہلی مناسب کتاب ہے جس کو میں نے خلافت کے مسئلے پر پڑھا ہے اور میں اس سے بہت متاثر بھی ہوا ہوں۔ مصنف نے خلافت کے پورے تصور کو واضح طور پر بیان کیا ہے ۔۔۔ قرآن پاک میں اللہ سبحانہ وتعالی نے اس مسئلے کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس سے ہی شروع کیا گیا اور پھر احادیث سے اس کے تصور کو ثابت کیا گیا ہے۔۔۔۔ پہلے چار خلفاء کے دور کی وضاحت بالکل واضح ، غیر جانبدارانہ انداز میں کی گئی ہے ، یہ ان تمام لوگوں کے لئے راہنمائی کا کام کرتی ہے، جو امت مسلمہ میں خلافت کو غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد لڑی جانے والی لڑائیوں کے بارے میں ایک واضح بصیرت کا بیان ہے۔۔۔ اموی خاندان نے بادشاہت کے آغاز کی نشاندہی کی اور مصنف نے تاریخ کے کچھ حصے چھپائے نہیں، تاکہ ظاہر کیا جا سکے کہ یہ ایک المیہ تھا ، واقعتا مسلمان امت کے لئے ایک سنگین سانحہ تھا۔۔۔امویوں اور عباسیوں کی حکمرانی کے دوران ، یہ حضرت عمر بن عبد العزیز ہی تھے جنہوں نے صرف ڈھائی سال کے عرصے میں ہی ثابت کیا کہ حقیقی خلیفہ کیسا ہونا چاہئے ۔
حضرت عمر نے ایک بار حضرت سلمان فارسی سے پوچھا کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ؟
انہوں نے بلا تامل کہا اگر آپ مسلمانوں کی زمین سے ایک درہم بھی حق کی خلاف وصول کریں اور حق کے خلاف خرچ کریں تو آپ بادشاہ ہیں نہ کہ خلیفہ۔۔۔
ایک اور موقع پر حضرت عمر نے اپنی مجلس میں کہا کہ خدا کی قسم میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا کہ میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ، اگر میں بادشاہ ہوں تو یہ بہت بڑی، سخت بات ہے۔۔۔ اس پر ایک صاحب نے کہا اے امیر المومنین!! ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے، آپ نے پوچھا وہ کیا، ان صاحب نے کہا کہ خلیفہ کچھ نہیں لیتا مگر حق کے مطابق، اور کچھ خرچ نہیں کرتا مگر حق کے مطابق۔۔۔آپ خدا کے فضل سے ایسے ہی ہیں۔۔۔رہا بادشاہ تو وہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے، ایک سے بے جا وصول کرتا ہے اور دوسرے کو بے جا عطا کرتا ہے۔۔۔۔