ترے ہی در پہ جھکی ہے مری جبین نیاز
مرے تھکے ہوئے لہجے میں بھر دے سوز و گداز
مرے قلم کو گہر پاش کر دے مرے کریم
اگر چہ اس سے ٹپکتا ہے میرا عشقِ مجاز
مری ہر شام ترے فضل سے ہے شام اودھ
تِرے ہی نام سے کرتی ہے صبح بھی آغاز
کریم! میرے تخیّل کو وہ بلندی دے
کہ جو ستاره سحری کو بھی نگوں کر دے
عطا کر بھول بھلیوں سے بھی نجات مجھے
مرا ضمیر جگا دے، عطا جنوں کر دے
بیاض خرد و جنوں میں عیاں ہیں حرفِ کشیٖد
انہی پہ نظرِ عنایت یہی میری تمہید
احمد پاشاؔ جی
بڈکوٹ هندواره