مجھے بار خاطر بتانا پڑے گا
سہی کیا غلط کیا سکھانا پڑے گا
ملے حسرتوں کے مگر داد کیسے
مجھے دل کو دل سے ملانا پڑے گا
بہت دن سے کوشاں ہو دیدار عالم
تجھے رخ سے پردا اُٹھانا پڑے گا
مجھے کیا ضرورت ارے مال و زر کی
کبھی سر کو اپنے جھکانا پڑے گا
وہاں کون آکر بچا لے گا یاور
‘انا’ عشق میں،کو گنوانا پڑے گا
یاور حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ