سال رفتہ کے دوران ایسے حالات نے جنم لیااور ہر سو اقتصادی بدحالی رونما ہوئی اور آج بھی اس کے اثرات بدستور ہیں۔اس کے بنیادی محرکات یہ ہیں کہ مرکزی سرکار کی جانب سے 5اگست 2019کے فیصلے کے بعد جموں وکشمیر میں ہڑتال وبندشیں اور کوروناوائرس کی وجہ سے لاک ڈاون ہیں۔ان دونوں واقعات سے تجارتی سرگرمیاں بُری طرح متاثر ہوئیں۔اگر چہ لاک ڈاون کے خاتمہ کے بعد کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوئیں لیکن مجموعی طور لوگوں کے پاس وہ سکت باقی نہیں رہی ہے جس سے وہ جم کر خریداری کر سکیں گے۔
ان بازار میں جب آجکل جاتے ہیں جن میں ایک سال قبل اتنا رش ہوا کرتاتھا کہ پاؤں ڈالنے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی لیکن آجکل دکاندار خریداروں کی تلاش میں دکانوں سے نیچے آکر سڑکوں پر ساز وسامان سمیت خیمہ زن ہوتے ہیں۔جبکہ اس سے پہلے خریداروں کو دکان تک رسائی لینے کیلئے کافی تکدو کرنی پڑتی ہے لیکن حالات نے کروٹ بدلی۔اسی طرح سے غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین محنت ومشقت کرکے اپنا روزگار چلاتے تھے لیکن ان اداروں میں گذشتہ ایک سال سے مسلسل خسارہ کی وجہ سے ان ملازمین کا روز گار بھی متاثر ہوا ان کی تنخواہیں یا تو کاٹ دی گئی یا ادارہ سے برطرف کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ روز گار سے ہاتھ دھو بیٹھے اور وہ خریداری نہیں کرسکتے ہیں۔
کئی صنعتیں یہاں کی اقتصادی بحالی کے لئے اہم ذرایعے تھے لیکن وہ ذرایعے بھی خسارہ اور نقصان کی شکار ہوئے اور یہ بھی اقتصادی بحران کی ایک اہم وجہ ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 5اگست 2019سے لیکران کی تجارت کافی متاثر ہے اور صرف قرضد اروں کا قرضہ چکانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں جبکہ خریداروں کی ان کو ہروقت تلاش رہتی ہے خرید وفروخت کے تمام اصول بدل گئے۔ پہلے کوئی خریدار 50ہزار روپے کو دکاندار سے اشیا ء لیتا تھا اور 50 فیصدی ادھار رکھتا تھا۔لیکن اب ’اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی ہے۔
یہ بھی تجارتی سرگرمیو ں میں کمی ہونے کی ایک وجہ بتاسکتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہر سرینگر کے حساس اور ممتاز بازار بشمول لیمبراٹ لین،سنٹرل مارکیٹ،ریگل چوک،جنگلات گلی،گونی کھن،فئیر ڈیل مارکیٹ اور قصبہ جات کے بازار جنگلات منڈی،کے پی روڑ،قصبہ سوپور کے بازار،بارہمولہ کا مین چوک یا وادی کے دیگر بازاروں میں اگر چہ لوگوں کی گہماگہمی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن خرایداری بالکل کم ہے اور دکانداروں کے کہنے کے مطابق نہ ہونے کے برابر ہے۔البتہ وہ دکانداروں قرضداروں کی ہفتہ وار وگرائے بھی پورا کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور ہر ہفتہ ان کو ایسی پریشانی کا سامنا کرناپڑرہا ہے کہ ان کی راتوں کی نیندیں بھی حرام ہوئی ہیں۔اس طرح سے مجموعی طور حالات کافی دگر گوں ہیں اور اقتصادی حیثیت سے لوگ پیچھے ہورہے ہیں۔
ہوٹلوں اور ریستوران اقتصادی بحالی کا ایک اہم وسیلہ تھا لیکن ان حالات کی وجہ سے ہوٹل اور ریستوران ویران ہیں۔ان میں کام کرنے والے ملازمین بھی بے کار ہوئے جبکہ ان ہوٹلوں میں معمول کارش بالکل معدوم ہوچکا ہے۔اب یاہوٹل مالکان کرایہ پر کمرے دے رہے ہیں یا اپنے عام مصرف میں رکھے ہوئے ہیں۔مالی بدحالی نے ہر سو اپنا ڈھیر ہ جمادیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری اقتصادی بحران کو کم کرنے کیلئے ٹھوس اور موثر اقدامات اٹھائیں تاکہ عوام کو راحت مل سکے اورکاروباری سرگرمیاں پہلے کی طرح بحال ہوجائیں۔