تحریر :حافظ میر ابراھیم سلفی
بارہمولہ کشمیر
کیا بات ہے ماں ! آج اتنے سارے پکوان۔۔۔۔ کوئی آنے والا ہے کیا؟
ماں: نہیں بیٹے، وہ کیا ہے ناں آج تمہیں امتحان فورم بھرنے جانا ہے، سوچا کہ آج کچھ میٹھا کھلا کر ہی تمہیں رخصت کردوں۔۔۔ کافی عرصہ ہوگیا گھر میں کچھ خاص نہیں پکا ہے۔
بیٹا: میری پیاری ماں! ایک رات ہی کی تو بات ہے۔ آج جاؤں گا، فورم بھرتے ہی واپس چلا آؤں گا۔
ماں:بیٹے! ہم دونوں نے تمہارے لئے بہت خواب دیکھے ہیں۔ لگن سے پڑھائی کرنا تاکہ تمہارا باپ فخر سے اپنا سر اونچا کرسکے۔۔۔
بیٹا: ہاں ماں، جانتا ہوں کہ میں اکلوتا بیٹا ہوں، مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ آپ دونوں کی امیدیں مجھ سے ہی وابستہ ہیں۔ ماں! بے فکر رہو، میں دن رات ایک کرکے ابو جان کی کمائی کا حق ادا کروں گا۔۔ بس دعا کرنا میرے لئے۔۔۔
آصف کی ماں مسکراتے ہوئے۔۔۔ ایسا لگ رہا تھاکہ آصف کی ماں بیٹے کی زبان سے یہ باتیں سن کر خوشیوں کی وادی میں سیر کررہی تھی۔۔۔ بات چیت ختم ہوتے ہی ماں نے بیٹے کا سر چوما۔۔۔
"گژھ میون پروردگار کرنے کامیاب”.
آصف گھر سے نکلتے ہوئے۔۔۔۔ اچھا ماں، میں چلتا ہوں۔
ماں:سنو! یہ مٹھائی تو کھا کر جاؤ۔بڑے پیار سے بنائی ہے۔۔۔۔
پیچھے سے بہن پکارتے ہوۓ۔۔۔۔
بہن:بھیا! ایک منٹ رکنا۔ تمہارے جوتوں کو صاف کرنا بھول گئی ہوں۔ ایسے ہی رہو ، میں صاف کرتی ہوں۔
بھائی:ارے پگلی! اتنا کون دیکھتا ہے آج؟
بہن:بھیا! تمہیں سرینگر جانا ہے۔۔ وہاں کے لوگ کافی سمارٹ ہوتے ہیں۔۔۔(معصوم احساسات)
بھائی اور بہن دونوں مسکراتے ہوئے۔۔۔۔
بہن:اچھا بھیا! اپنا خیال رکھنا، حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ کام ہوتے ہی واپس چلے آنا۔
آصف: ماں! گیارہ (11:00am) بج چکے ہیں۔ سرینگر تک پہنچتے پہنچتے دو گھنٹے تو لگیں گے ہی۔ اوپر سے راستہ میں کافی ٹریفک ہوتا ہے۔ اگر دیر ہوئی تو میں رات کو وہیں رک کر کل صبح آوں گا۔۔۔۔۔
آصف فارم بھرنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے۔ ماں اور بہن ہنسی خوشی اپنے کام میں لگ جاتی ہیں۔مغرب کی اذان ہوجاتی ہے پر آصف گھر واپس نہیں آتا، شاید آصف کو دیر ہوگئی تھی اسی لئے نہیں آ پایا۔۔۔۔۔مغرب نماز پڑھ کر آصف کے ابو جان گھر تشریف لاتے ہیں۔
والد :آصف نہیں آیا ابھی۔۔؟
بیٹی :ابا! اسے دیر ہوگئی ہوگی۔۔۔ کل صبح آئے گا۔
والد صاحب:اچھا میں اسے فون کرتا ہوں۔۔۔
ابو جان فون نمبر dial کرتے ہیں پر آصف کا فون switch off آتا ہے۔ مسلسل کوشش کے بعد بھی آصف کا فون off ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ پوری رات ماں باپ بیچینی میں رہتے ہیں کیونکہ اولاد کا درد عظیم ہوتا ہے۔پوری رات دونوں بیدار ہی رہے۔۔۔ ہاۓ یہ اولاد والدین کو کتنا رلاتے ہیں…..؟
صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ فجر پڑھ کر ابو جان کی آنکھیں راستے کو بیٹے کی آنے کی خاطر تک رہی ہوتی ہیں۔ دس بجتے ہیں لیکن آصف کا کوئی اتا پتا نہیں۔ ماں ادھر چپکے چپکے آنسو بہا رہی ہوتی ہیں۔ آخر ماں ہے نا!!!
دس بجے اچانک پورے گاؤں میں رونے اور شور و غل کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ پورا علاقہ آصف کے گھر کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے۔ یہ شور و غل اچانک ماتم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آصف کے گھر پر قیامت اس وقت ٹوٹ پڑتی ہے جب آصف کے قتل کی خبر والدین تک پہنچ جاتی ہے۔
آصف کے لئے ماں نے جو مٹھائی تیار کی تھی۔۔۔ وہ زہر آلودہ ہوگئی۔فجر پڑھ کر ہی بیٹے کی راہ دیکھ رہا والد۔۔۔۔۔ زندہ ہی سپرد خاک ہوگیا۔۔۔۔
بہن زخموں سے چور اپنے بال نوچ رہی ہے۔۔۔
آصف کے والدین آصف کا آخری دیدار کرنے کی خاطر ننگے پاؤں گھر سے نکلتے ہیں۔۔۔۔ آصف کی ماں کے سر پر دوپٹہ بھی نہ رہا۔۔۔۔ لیکن ہائے!!! اس ظالم فضا نے انہیں آصف کا معصوم چہرہ جو والدین کے ارماں لیکر گھر سے نکلا تھا دیکھنے بھی نہ دیا۔۔۔۔۔۔
خواب مٹی میں مل گئے۔۔۔۔ بیٹے کی جدائی نے پورے گھر کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔۔۔ اب دونوں میاں بیوی دیوانوں کی طرح تڑپ تڑپ کر بس یہی پکار رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
"میرے آصف!! تو کہاں چلا گیا، میرے آصف کو ڈھونڈ کے لاؤ، میرا آصف معصوم تھا۔۔۔ کس نے میرے مہکتے گلاب کو مسل دیا۔۔۔۔۔۔؟
یہ سؤال ہے۔۔۔ انسانیت کے نام۔۔۔۔۔
یہ سؤال ہے۔۔۔۔انصاف کے ایوانوں کے نام۔۔۔۔۔۔
مصنف اسلامک اسٹڈیز کے طالبِ علم ہے اور اُن سے [email protected] یا 6005465614 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔