دنیامیں صنعتی انقلاب کے بعد بڑے پیمانے پر سماجی بدلاو نظر آنا فطری امر ہے۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں نہ صرف عالمی کاروباری سرگرمیوں میں زبردست تبدیلی آگئی بلکہ زندگی کے ہر ایک شعبے جیسے کہ تعلیمی، سماجی، سیاسی اور معاشی سطح پر بھی لوگوں کی سوچ بدل گئی۔ ایک طرف سے اگر لوگوں کی معیاری زندگی میں خاصی تبدیلی آگئی اور لوگوں کے پاس بنیادی ضروریات کے علاوہ ہر قسم کی عیش و آرام کی چیزیں دستیاب ہونے لگیں لیکن دوسری طرف اخلاقی انحطاط کا گراف بھی کافی نیچے چلا گیا۔ ہر ایک معاشرے میں لوگوں کی زندگی کے معیار سے متعلق کچھ وضع شدہ روایات ہوتی ہیں اور ان کو پروان چڑھانے کیلئے معاشرے کے افراد اقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور حصول معاش کیلئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں، یہ طریقے صحیح بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس معاشی دوڑ میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے فراق میں اور ہر سہولیت کو میسر کرا نے کے عوض غلط طریقوں سے بھی دولت کمانا ایک قابل قبول روایت بن چکی ہے۔
اس تعلق سے اگر ہم خاص کر وادی کشمیرکی طرف سر سری نظریں دوڑاتے ہیں تو یہ بھی اس دوڑمیں دوسروں کیساتھ شانہ بہ شانہ چلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جو کبھی اپنی سادگی اور شرافت کیلئے اپنی مثال آپ تھا آج رشوت خوری، بدعنوانی اور اسکینڈلوں کے ایک ایسے دلدل میں پھنس گیاہے جہاں سے نکلنا نہ صرف مشکل دکھائی دے رہا ہے بلکہ محال بھی ہے۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کسی حد تک یہاں کا موجودہ بیکنگ نظام ہے، جنہوں نے لون کی فراہمی کو آسان بنا کر لوگوں کے لئے عیش وراحت کا سامان فراہم کیا جو سودی نظام پر مبنی ہے اور لوگ اس چکی میں پستے ہوئے اپنے آپ کو ان حالات سے بے خبر پارہے ہیں جن کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔چاہے گھر ہو یا آفس جھوٹ نے اپنے جھنڈے اس طرح گاڑ دئے ہیں کہ ہر زباں پہ کوئی سچ بات نکلنا مشکل ہورہا ہے۔
اب یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ، دھوکہ دہی، چرب زبانی، لوگوں کے پیچھے دوسروں کی برائی کرنا عوام کا شیوہ بن چکا ہے۔ غلط طریقے سے دولت کی حصولیابی اور اخلاقی اقدار سے بے زاری نے ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔ ہر ایک شخص اپنے آپ کو صحیح مان کر دوسرے کے متعلق غلط بیانی کرتا ہے اور اسے غلط گردانتا ہے۔ جب تک ہمارے معاشرے میں سچ اور جھوٹ کی تمیز نہ دکھے تب تک ایک صحیح معاشرے کا تصور نا ممکن ہے۔ معاشی دوڑ میں صحیح اور غلط کا معیار بھلا کر ہم شائد یہ بھول رہے ہیں کہ اس دنیا میں کتنی ہی دولت کو سمیٹا جائے لیکن یہ کسی بھی صورت میں ہمارے لئے نجات کا سبب نہیں بن سکتی۔ انسان کے نیک اعمال ہی وہ اصل دولت ہے جو اللہ کے حضور سرخ روئی کا سبب بننے کیلئے کافی ہیں اور انسانی معاشرے کی بہترتعمیرکی ضمانت ہے ورنہ یہ تمام طریقے بے سود اور بے کار ہیں۔وقتی طور انسان مزے کی زندگی جی رہا ہے لیکن یہ ایک بلبل کی مانند ہے اور صرف ایک دھوکہ ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اہم اپنے اندر کے انسان کو ٹٹول لیں اور دیکھیں کہ کہیں کہ دنیا کے عیش و آرام کو سمیٹتے ہوئے اپنے فرائض سے انجان بن کر اللہ کے ہاں اپنی رسوائی کا سامان تو پیدا نہیں کررہے ہیں، جس سے بچنے کیلئے ہم جتنا جلدی عمل کریں وہ غنیمت ہے۔