الطاف جمیل ندوی
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
ایک عقلمند باپ نے اپنے عقلمند اور باادب بیٹے کے دونوں کاندھوں پہ ہاتھ رکھا اور کہا بیٹے بتاﺅ اس دنیامیں سب سے بڑا طاقتور کون ہے
اس نے جواب دیا ۔۔۔میں ۔
پھر باپ نے دونوں اپنے ہاتھ اس کے کاندھوں سے اٹھائے اور کہااس کائنات میں سب سے زیادہ کمزور کون ہے ؟
اس نے جواب دیا ۔۔۔۔۔میں ۔
باپ نے اپنے بیٹے سے کہا میرے بیٹے ایک ہی مجلس میں تم نے کہاسب سے طاقتور میں ہوںاور سب سے کمزور بھی میں ہوں ،یہ کیسے ہوسکتا ہے
عقلمند بیٹے نے جواب دیتے ہوئے کہا ،میرے ابوجان ! جب آپ کے دونوں ہاتھ میرے کاندھوں پر تھے تو سب سے بڑا طاقتور میں تھا
اور جب آپ نے دونوں ہاتھ میرے کاندھوں سے اٹھا دیے تو سب سے زیادہ کمزور میں ہوگیا
والد کی محبت و شفقت ٍ، عنایا ت و خدمات ،محنت،حوصلہ وہمت کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔باپ ایک عظیم انسان ہے ماں اگر بنیاد ہے تو باپ اس بنیاد کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے والد کی محبت تحفظ کا احساس ہے والد ایک عظیم تحفہ خداوندی ہے جو ہر درد ،دکھ سہہ کر اولاد سے وفا کرتا ہے آج اسی عظمت و شفقت سے سرشار لفظ پر لب کشائی کرتے ہیں
والد کا سایہ رحمت ربی ہے
والد ایک سائبان شفقت ہے جس کے سائے میں اولاد پروان چڑھتی ہے۔ باپ کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ والد کے ہوتے ہوئے بیٹے بے فکری کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جیسے ہی باپ کا سایہ عافیت سر سے اٹھتا ہے تو فوراً ہی اولاد کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سر پر کتنا بوجھ آن پڑا ہے والد دنیا میں اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ہے۔ انسان جو کچھ بھی ہے والد ہی کی وجہ سے ہے۔ والد اپنی اولاد کی پرورش کے لیے اپنی جان تک لڑادیتا ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اولاد کی راحت رسانی میں صرف کردیتا ہے۔ دنیا کی تمام نعمتیں اولاد کو لاکر دینے کی کوشش کرتا ہے، جس کے لیے اپنی خواہشات کو بھی دبا دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کو خود سے آگے جاتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، کسی دوسرے کو خود سے زیادہ ترقی کرتا ہوا دیکھ کر شاید ہی کوئی خوش ہو لیکن والد کی شخصیت ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے اس کی اولاد اس سے آگے بڑھے۔ وہ بچوں کو ترقی کرتا ہوا دیکھ کر پھولا نہیں سماتا۔ خود اپنے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے کوشش کرتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ جو کام میں نہیں کرسکا میرے بچے کریں۔ والد ایک ایسا مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی اولاد کی نگہبانی کرتا ہے۔
اللہ رب العزت نے بھی والدین کی عظمت کا جابجا تذکرہ فرمایا ہے۔ ان کی عظمت بیان فرماتے ہوئے تلقین کی ہے کہ ان کا ہر حکم بجا لاؤ سوائے اس حکم کے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور ان کے سامنے اف تک نہ کہو۔ ان کے سامنے عاجزی اختیار کرو۔ بڑھاپے میں ان کا خیال رکھو۔ ان کی خدمت کرکے اپنے لیے حصول جنت کا راستہ ہموار کرو۔ ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بددعا فرمائی کہ ہلاک ہوجائے وہ شخص جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور ان کی خدمت کرکے جنت نہ حاصل کرسکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: آمین۔ اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت نہ کرنا بالخصوص جب وہ بڑھاپے میں پہنچ جائیں کتنی بڑی بدنصیبی ہے۔ ایک موقع پر باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”باپ جنت کے بیچ کا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے۔“ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا، وہ شخص ذلیل و رسوا ہوا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور پھر (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخلے کا حق دار نہ بن سکا۔“
ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ میرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو بلایا۔ جب والد کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کی ہے تو انہیں بہت رنج ہوا۔ راستے میں چلتے ہوئے انہوں ن ے دل میں کچھ اشعار کہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے مجھے وہ اشعار سنایئے جو آپ نے راستے میں کہے ہیں۔ وہ مخلص صحابی تھے، سمجھ گئے کہ وہ اشعار جو ابھی تک میرے کانوں نے بھی نہیں سنے، وہ بھی اللہ تعالی نے سن لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر بھی کردی ہے۔ انہوں نے وہ اشعار سنانے شروع کیے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے: ”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تم بیمار ہوجاتے تو میں بیداری میں رات گزارا دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی سے دیا۔ جیسا کہ تم مجھ پر احسان و انعام کررہے ہو۔ کم از کم اتنا ہی حق مجھے دے دیتے جتنا ایک شریف پڑوسی دیتا ہے۔ کم از کم مجھے پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا……“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو بیٹے سے فرمایا کہ ”تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے
اس سے معلوم ہوا کہ باپ کے دل سے نکلنے والی آہ کتنی جلدی عرش تک پہنچتی ہے، اس لیے والدین کے لیے راحت کا ذریعہ بننا چاہیے نہ کہ اذیت رسانی کا۔ ماں باپ کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ ان کے دل سے دعائیں نکلیں۔ ماں باپ کی خدمت سے زندگی میں خوشحالی آتی ہے، رزق میں برکت ہوتی ہے، اولاد فرمانبردار ہوتی ہے، دعائیں اور عبادت اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ تعالی کی ناراضی باپ کی ناراضی میں پوشیدہ ہے۔ اپنے بیوی بچوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر اپنے ماں باپ کی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اولاد کے ذمہ فرض ہے۔ والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے، انہیں آرام و سکون پہنچانے کی کوشش کی جائے، ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا جائے۔ کثرت سے والدین کے لیے یہ قرآنی دعا مانگی جائے: ”رب ارحمھما کما ربیانی صغیراً“ یعنی اے میرے پروردگار تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے مجھے بچپن میں پالا
والد کی عظمت
باپ اللہ سبحانہ و تعالی کی عظیم نعمت ہے جو اپنی اولاد کی پرورش کے لیے دن رات محنت کرتا ہے اور انہیں راحت پہنچاتا ہے۔ انہیں تعلیم و تربیت اور ہر قسم کی سہولیات مہیا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ وہ اپنے آرام و سکون پر اپنی اولاد کے آرام و سکون کو ترجیح دیتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدین کی عظمت و اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن کریم میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے نرمی سے بات کرنا (الاسراء 23)
یعنی والدین کو بڑی تکلیف پہنچانا تو دور کی بات ہے انہیں ایسا کلمہ تک کہنے کی اجازت نہیں کہ جس سے انہیں تکلیف کا احساس ہو۔ والدین کے ساتھ عاجزی سے پیش آنے اور ان کے لیے دعا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا: اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو اور کہو اے میرے رب جس طرح انہوں نے مجھے بچپن سے پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما (الاسراء 24)
والد کو اللہ سبحانہ و تعالی نے بہت بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ انصار میں سے ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ میرے والد نے میرا مال لے لیا ہے۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہی تو ہے (مصنف ابن ابی شیبہ جزء 5)
والد کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے (شعب الایمان للبیہقی 7585) یعنی اگر کسی نے یہ دیکھنا ہو کہ اس کا رب اس سے راضی ہے کہ نہیں تو وہ اپنے والد کو دیکھ لے۔ اگر اس کا والد اس سے راضی اور خوش ہے تو وہ سمجھ لے کہ اللہ سبحانہ وتعالی بھی اس سے راضی ہے اور اگر اس کا والد اس سے راضی نہیں ہے تو وہ سمجھ لے کہ اللہ سبحانہ وتعالی بھی اس سے راضی نہیں ہے۔
والد کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے چاہے تم اس دروازے کو ضائع کر دو یا اس کی حفاظت کرو (سنن ابن ماجہ 3663)
آج کے دور میں بہت سارے لوگ والدین کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے اور انہیں اذیتیں پہنچاتے ہیں انہیں ضرورت کی چیزیں تک فراہم نہیں کرتے حالانکہ والدین کے ساتھ معاملے پر انسان کی جنت اور دوزخ کا دارومدار ہے۔ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ اولاد پر والدین کا کیا حق ہے؟ فرمایا: وہ دونوں تمہاری جنت بھی ہیں اور تمہاری دوزخ بھی ہیں (سنن ابن ماجہ 3662)
تمام عمر ہوں گزر گئی کہ والدین ناراض رہے کبھی ان سے خندہ پیشانی کے ساتھ بات نہ کی اب ان کی موت ہوگئی تو کیا کیا جائے کہ اللہ اس جرم کی معافی عطا فرمائے ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال کیا دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں تو جواب آیا ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگا کرو اور ان کے جاننے والوں سے نیک سلوک تو بات ہے کہ جو بھی لوگ ہمارے والدین سے جڑے ہوئے ہوں والدین کی موت کے بعد ان سے نیک برتاؤ بھی ہمارے لئے ذریعہ نجات کا ہے
والد کی نصیحت
والد کی نصیحت ہماری بھلائی کے لئے ہوتی ہے خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو ایسے ہزاروں واقعات ہیں کتابوں میں جب بچے نے ضد کی والد سے پر وہ جان نہ سکا اس ہستی کی محبت اپنے تئیں جب خبر ہوئی تب والد نہ تھے اور پھر پچھتاوا ہوا کہ کاش میں نے تم پر بھروسہ کیا ہوتا اور آپ کی دیکھائی راہ پر چلا ہوتا کم از کم آپ کی جدائی کی یہ مار تو سہہ پاتا اس قدر ہمارا کوئی رفیق نہیں ہم پر دنیا میں اپنی خوشیاں نچھاور کرنے والا نہیں جس قدر ہمارا والد ہمارا مشفق اور ہم پر مہربان ہوتا ہے ایک نصیحت اموز واقعہ آپ کی بصارتوں کی نظر کرتا ہوں
اپنی وفات سے قبل، ایک والد نے اپنے بیٹے سے کہا،” میری یہ گھڑی میرے والد نے مجھے دی تھی۔ جو کہ اب 200 سال پرانی ہو چکی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ میں تمھیں دوں کسی سنار کے پاس اس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں۔ پھر دیکھو وہ اس کی کیا قیمت لگاتا ہے۔”
بیٹا سنار کے پاس گھڑی لے گیا۔ واپس آ کر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ سنار اسکے 25 ہزار قیمت لگا رہا ہے، کیونکہ یہ بہت پرانی ہے۔
والد نے کہا کہ اب گروی رکھنے والے کے پاس جاؤ۔ بیٹا گروی رکھنے والوں کی دکان سے واپس آیا اور بتایا کہ گروی رکھنے والے اس کے 15 سو قیمت لگا رہے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ استعمال شدہ ہے۔
اس پر والد نے بیٹے سے کہا کہ اب عجائب گھر جاؤ اور انہیں یہ گھڑی دکھاؤ۔ وہ عجائب گھر سے واپس آیا اور پرجوش انداز میں والد کو بتایا کہ عجائب گھر کے مہتمم نے اس گھڑی کے 8 کروڑ قیمت لگائی ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور وہ اسے اپنے مجموعہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔
اس پر والد نے کہا،” میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صحیح جگہ پر ہی تمھاری صحیح قدر ہو گی۔ اگر تم غلط جگہ پر بے قدری کئے جاؤ تو غصہ مت ہونا۔ صرف وہی لوگ جو تمھاری قدر پہچانتے ہیں وہی تمھیں دل سے داد دینے والے بھی ہوں گے۔ اسلئے اپنی قدر پہچانو، اور ایسی جگہ پر مت رکنا جہاں تمھاری قدر پہچاننے والا نہیں
والد کی جدائی
جدائی لفظ سے ہی میں تڑپ جاتا ہوں وہ بھی اپنے والد کی ہو تو خوشیوں کی دنیا ویراں ہو جاتی ہے جب اس شجر ہائے سایہ سے انسان محروم ہوجاتا ہے تو یقین کریں انسان دنیا میں اکیلا پڑھ جاتا ہے کوئی کتنا بھی سہارا دے پر بابا کی جدائی کا زخم بھر نہیں جاتا میرے والد آج سے بہت سال پہلے داغ مفارقت دے گئے مجھے یقین کریں مجھے جب آج بھی وہ یاد آتے ہیں ان کی وہ خوبصورت مسکان ان کا وہ مٹھائی کا ایک ٹکڑا ان کا وہ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرنا ان کا میرے ہلکے سے بخار پر تڑپ جانا ان کا وہ غصہ کرکے امی سے کہنا کیا اس نے کھانا کھایا ان کے وہ مجھ سے وعدے کرنا پھر تھک کر آنا مجھ اب بھی تڑپاتا ہے میں اب بھی اپنے والد کی قبر پر جب جاتا ہوں گرچہ اب میری عمر کا ایک لمبا سفر طے ہوچکا ہے پر اب بھی یاد ہے کہ موت سے پہلے انہوں نے مجھ سے کہا تھا پانچویں میں پاس ہوجا میں کتابیں اور نیا بھیگ لاکر دوں گا جب بھی ان کی آخری آرام گاہ پر جاتا ہوں تو آنسو آجاتے ہیں کہ ہائے بابا آپ نے تو وعدہ توڑ دیا میں نے پایا ہے کہ والد کی جدائی کے بعد کوئی اپنا نہیں رہتا اسی لئے جن کے والد ہیں اللہ سے مانگیے دعا کہ بابا کا سایہ بنا رہے
چلتے چلتے راشد جمال کی یہ کوشش آپ کی نظر
یہ تو صدیوں کا قصہ تھا
یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا
جلتی، تپتی، بھنتی اور سلگتی رت میں
اس کے نیچے
یہیں کہیں پر
ایک جزیرہ سا آباد رہا کرتا تھا
خنک خنک سائے میں
ہنستے ،گاتے مسکاتے لوگوں کی
اک بستی تھی
یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا
یہی دھوپ
جو آج یہاں پر چیخ رہی ہے
پل بھر سستا لینے کو ترسا کرتی تھی
یہ تو صدیوں کا قصہ تھا
یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں والدین کا مقام و مرتبہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ان کی خدمت کرنے کا جذبہ اور ان کی فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین