الطاف جمیل ندوی
عربی زبان ہمارے لئے باعث محبت اس لئے بھی ہے کہ اسی زبان میں ہمارے دین کی تمام بنیاد موجود ہے یہ زبان پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہے اب اسکی زبان کے سلسلے میں گرچہ بہت کچھ کام ہورہا ہے پر وادی کشمیر میں اس زبان کا رجحان اب تک قلیل ہی کہا جاسکتا پر زبان عربی پر وادی کے ایک قابل و ذی عزت نوجوان جن کا اسم گرامی گرامی ڈاکٹر معراج الدین ندوی حفظہ اللہ ہے کے بارے میں کچھ گزارشات پیش خدمت ہیں
ویسے تو زبانوں کی کوئی تخصیص کرنا گرچہ میرے لئے کوئی اہمیت و افادیت نہیں رکھتا پر کوئی اگر قابل قدر خدمات انجام دے رہا ہو تو اس کے بارے میں جاننے کا ہمیشہ متلاشی رہنا میرے لئے باعث مسرت ہے۔ ایسے ہی ایک صاحب جن کے بارے میں لکھنے جارہا ہوں ہمارے یہاں بھی ہیں جو عالمی سطح پر عربی زبان و ادب کی خدمت میں مصروف العمل ہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موصوف وادی کشمیر کے لہلہاتے سبز زاروں کے مکین ہیں جہاں عربی زبان و ادب کے بارے میں مخصوص افراد ہی واقفیت یا اس پر کام کر رہے ہیں جن میں سے کچھ عالمی شہرت کے حامل ہیں ( یہاں گر میں کشمیر کے عظیم عالم و فاضل کا نام نہ لوں تو یہ خلاف ادب ہوگا میری مراد ہیں علامہ انور شاہ لولابی کشمیری رحمہ اللہ جن کے علمی وقار سے متعارف پوری دنیا کا علمی حلقہ ہے ) ان کے علاوہ بھی کچھ شخصیات ہیں جو عربی زبان و ادب پر کام کررہے ہیں۔
پر مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تردد نہیں ہے کہ اس بار میرے محترم بازی مار گئے ہیں اور سب سے آگے ہیں۔ عربی زبان و ادب کی خدمات انجام دینے میں کچھ سالوں سے موصوف کی شگفتہ مزاجی سے حظ اٹھانے میں مصروف ہوں اور موصوف بھی اپنی شگفتہ مزاجی میں نکھار لاتے جارہے ہیں، جن کا مختصر علمی و ادبی خاکہ پیش خدمت ہے، میری مراد ہیں ڈاکٹر معراج الدین ندوی حفظہ اللہ۔
والد محترم : عبدالرحمن
سکونت : پانتہ چوک
تعلیمی قابلیت : ڈاکٹریٹ بعنوان مؤرخ ناقد اور ادیب احمد امین مصری کے تنقیدی اور ادبی وتاریخی خدمات پر
تبسہ یونیورسٹی الجزائر سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عربی زبان وادب کی خدمات پر
زیان یونیورسٹی الجزائر کی طرف سے سینٹفک بورڈ ممبر۔
آیدن یونیورسٹی ترکی کی جانب سے مجلہ تلمیذ اور اس کے چیف ایڈیٹر ہونے کے ناطے یک سالہ مالی معاونت۔
عربی زبان میں ان کی کچھ تالیفات درج ذیل ہیں:
1- ترجم عشرة أجزاء من القرآن الحكيم
2- الأستاذ أحمدأمين ناقدا وأديبا
3- رائدالاختبار لنجاح الأبرار
4- تعالوا نتعلم العربية
5- الفكرة اللغوية عند الأستاذ أحمد أمين
6- رئيس التحرير لمجلة التلميذ
7- قنديل أم هاشم “دراسة تحليلية” (باللغة الأردية)
8- ماه صيام بحيثيت طبيب حاذق
9- نور الأريب من قواعد الأديب
لکھنے کا شوق
۱۴ سال کی عمر میں غیر مربوط طریقے سے لکھنا پڑھنا شروع کیا تھا۔پھر ۱۵ سال کی عمر میں ” لا اکراہ فی الدین ” کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا تھا جو نامساعد حالات کی وجہ سے ضائع ہوگیا۔
عزیز مکرم جو سب سے بہترین کام عربی زبان و ادب کے لئے انجام دے رہے ہیں وہ ہے مجلة التلمیذ کی اشاعت اس بارے میں مشہور نقاد ومصنف ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب رقم طراز ہیں:
ڈاکٹر معراج الدین ندوی خود بھی بحیثیت لیکچرر عربی زبان و ادب کی تدریس سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عربی زبان وادب کی خدمت مجلہ "التلميذ” کی مسلسل اشاعت سے سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ رسالہ اپنے معیار کی بدولت عالمی سطح کے رسائل میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نظر آرہا ہے کیونکہ ایک تو اس کی معیاری تحریرات اور دوسرا عربی دنیامیں اس کی پزیرائی سے عیاں ہے کہ حلقہ قارئین نہ صرف اسے پسند کررہے ہیں بلکہ بطور مدیر مجلہ ڈاکٹر معراج الدین ندوی بھی رسالے کی زینت میں ہمہ تن مشغول ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ معروف ومعتبر اساتذہ کرام اور ادباء وشعراء کی تحریریں مجلہ کی رونق میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔ راقم کی نظر سے چند شمارے گزرے ہیں اور پڑھ کر اطمینان ہوا کہ رسالہ کامیابی کی طرف گامزن ہے۔یہ عربی زبان کے اسکالرز اور طلبہ کے لئے ایک مفید رسالہ ہے۔
مجلة التلمیذ کا سفر عزیز محترم کی زبانی سنیے:
2011 میں اپنی ڈاکٹریٹ مکمل ہونے کے بعد اپنے مشفق استاذ محترم پروفیسر صلاح الدین عمری نے مجھے سے کہا: آپ کوئی علمی و ادبی مجلہ نکالیے مجھے ایک لمحے کے لئے اپنی ذات پر ترس آیا کہ یا الله کہیں میرے استاذ محترم مجھ سے ناراض ہوکر مجھے کسی مصیبت میں ڈالنا تو نہیں چاہ ریے ہیں! رب کی رحمت پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے اپنی ہمت کو تحریک دے کر میں نے اس کام کے لئے بسم اللہ کرنے کا ارادہ باندھ لیا اور اپنے استاذ محترم کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان کی رہنمائی میں دسمبر 2011 میں اس کام کو عملی شکل دے کر پہلا شمارہ "تلمیذ” کا صرف 24 صفحات پر شائع کیا، لیکن یہ کام محنت طلب ہونے کے ساتھ ساتھ مالی وسائل کے بغیر بالکل ممکن نہ تھا اپنے دیگر اساتذہ اور رفقاء سے مشورے لینے کے بعد اس بات کا انداز ہوا مگر اسے جاری رکھنے کے لئے طے کر لیا کہ چاہے کتنی بھی مشکلات آئیں چاہے مجھے کسی درگاہ یا مسجد کے سامنے ہاتھ کیوں نہ پھیلانا پڑے پر کام کو جاری ہی رکھوں گا اور اس کی اشاعت کو برابر جاری رکھنے کے لئے کبھی کچھ رقم دوستوں سے اور کبھی کچھ رقم اپنے والد محترم سے لیتا رہا حالانکہ والد محترم حفظہ اللہ نے ایک بار کہا کہ آپ عربی کے بجائے اردو میں مجلہ نکالیں لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں گے اللہ نے آپ کو اردو میں لکھنے بولنے کی صلاحیت دی ہے پر میں نے ادب واحترام سے ان سے کہا کہ میرے استاد کا حکم ہے میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں میں آپ کے حکم کے مطابق اردو میں بھی مستقبل میں ایک مجلہ شائع کرنے کی کوشش کروں گا ( یاد رہے ڈاکٹر صاحب نے اردو میں شاہین نامی رسالہ جاری کرنے کا ارادہ کرلیا تھے پھر نہ معلوم کیا ہوا )
خیر والد محترم نے دعائیں دے کر خاموشی اختیار کر لی اور میں پھر سے اپنے کام میں مشغول ہوگیا
یوں یہ سلسلہ چلتا رہا کہ ایک بار پھر 2013 میں میرے حوصلوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا کہ اب اس مجلے پر درود فاتحہ پڑھ کر دفن کردیا جائے کیوں کہ ہر ماہ ایک موٹی رقم کا انتظام کرنا مشکل ہوچکا تھا ایک تو اہل و عیال کی ذمہ داریاں اور دوسری طرف اس مجلے کےاخراجات ۔۔۔بڑا مشکل لمحہ تھا۔۔۔جب اس صورت حال کو میری شفیق ورفیق زوجہ محترمہ ڈاکٹر نور افشاں صالحاتی نے دیکھا کہ میں پریشانی میں مجلے کو بند کرنے جا رہا ہوں تو انہوں نے اپنے زیورات لاکر میرے سامنے رکھ کر کہا کہ علم اور علمی کاموں کے لئے اگر یہ زیورات کام نہ آئیں تو ہمارا جاہل رہنا ہی بہتر تھا۔ان کے جذبہ ایثار اور ذوق علمی کو دیکھ کر میں نے اپنے اندر ایک عجیب وغریب خوشی ومسرت کو محسوس کیا جس کی بنیاد پر آج تک میں کھڑا ہوں اور اس مجلے کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کشمیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے تک پہنچانے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہورہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ 2017 میں جناب ڈاکٹر اصغر حسن سامون پرنسپل سیکریٹری ہائیرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس مجلے کو اپنی سرپرستی میں لیکر مالی بوجھ سے کسی حد تک راحت دی جن کا میں مشکور و ممنون ہوں۔
موصوف کے اساتذہ ، جن کا تذکرہ وہ انتہائی ادب سے کرتے ہیں :
میرے کچھ اساتذہ :
مولانا بہاؤالدین سلفی ۔۔۔ان سے میں۱۴ /۱۵سال کی عمر میں حدیث اور اصول حدیث کا درس لیا اور ان سے ایک سال تک استفادہ کرتا رہا
۱۵ سے ۱۶ کی عمر کے درمیان عربی زبان کے قواعد اور "منہاج العربیہ”محمد عبداللہ وانی سابقہ امیر جماعت اسلامی سے پڑھیں جو کہ میرے لئے تعلیمی سفر کا آغاز تھا
پھر اس کے بعد جامعة الفلاح کی ایک دور دراز شاخ "چوکنیاں ” نامی دیہات ميں واقع مصباح العلوم میں ایک سال گزارا پھر وہاں کے اساتذہ کو میرے جمعہ کے بیانات پر اعتراض اور ان کے پڑھانے کے دوران میرے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات سے پریشان ہونا سبب اخراج ہوا اس کے بعد ندوہ العلماء کا رخ کیا جہاں گرچہ پانچ چھ ماہ تک ہوسٹل کی سہولیات سے محروم رہا لیکن پھر اپنے اساتذہ کی شفقت و محبت کے زیر سایہ مجھے بھی ہوسٹل کی سہولیات میسر رہیں جہاں میں نے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا جن میں مولانا شہباز اصلاحی، مولانا سلمان ندوی، مولانا نیاز صاحب، مولانا علاء الدین ندوی، مولانا محمد عارف سنبھلی مولانا فیصل بھٹکلی صاحب سے خاص علمی تعلق رہا اور شرعی علوم اور عربی ادب کے حوالے سے بہت کچھ ان سے سیکھا۔ یوں علم کا سفر اپنی منازل طے کرتا رہا جو میری تمنا و خواہش تھی طبری علامہ زمخشری اور تفسیر ماجدی وغیرہ کے ساتھ ساتھ تفھیم القرآن کا مطالعہ کرتا رہا مولانا مودودی رحمہ اللہ نے سابقہ تفاسیر کو جس خوبی سے عام فہم بنا کر اپنی تفسیر کو تیار کیا ہے مجھے اس پر فخر ہے یہ عظیم علمی کارنامہ ہے جو کہ ہر خاص و عام کے لئے قابل استفادہ ہے۔
محترم ایک انتہائی سادہ مزاج، ستھرا علمی ذوق، مطالعہ میں ہمہ تن مشغول شخصیت کے مالک ہیں اور علمی و ادبی خدمات کے لئے انتہائی تیزی کے ساتھ محو سفر ہیں۔ انکی سادگی کا یہ عالم کہ ایک بار سرینگر کے ایک سادہ سے ہوٹل میں مجھ سے ملاقات کے لئے چلے آئے اور چائے پینے کے لئے آرڈر دے کر باتوں میں لگ گئے گرچہ میں ان کے علمی وقار سے متعارف ہونے کے سبب کچھ احتیاط کر رہا تھا پر موصوف مسلسل اپنے علمی سفر کی روداد سناتے رہے یہ اور بات ہے کہ ان سے باتیں کرنے کے دوران گر کوئی میری طرح کا انسان پھنس جائے تو ہوائیں اڑتی محسوس ہوں گی کیونکہ موصوف اچانک بات کرتے کرتے اردو کشمیری کو بھول جاتے ہیں اور اپنی بات کا اختتام عربی الفاظ پر کرتے ہیں اور زبان سے ناواقف پریشان ہوجاتا ہے کہ اب میں کیا کروں اس بندے کا! میری تو سمجھ کچھ نہیں آیا بس پھر ہاں ہوں کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔
دعا گو ہوں کہ آپ کو رب کریم مزید ترقیات سے نوازے اور اپنی رحمتوں کا سایہ قائم و دائم رکھے اور یہ علمی وادبی ستارہ یوں ہی چمکتا دمکتا رہے۔ آمین