عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور‘ کشمیر
8825090545
انسان کی زندگی مسلسل تبدیلیوں سے عبارت ہے۔یہ تبدیلیاں جسمانی بھی ہوتی ہیں اور ذہنی بھی‘جسمانی تبدیلیوں سے صرفِ نظر انسان میں اگر ذہنی تبدیلیاں رونما نہ ہوں تو انسان کی عقل پر ایک جمود سا طاری ہوجاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان بہت سی ذہنی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتاہے۔بقول علامہ اقبالؒ ؎
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روحِ امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
جن افراد کی عقلوں پر جمود طاری ہوجاتا ہے‘وہ جہالت اور گمراہی کے مسلسل اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں‘وہ اپنے مقصد ِ تخلیق سے نا آشنا دنیاوی عیش وآرام میں الجھ کر اپنی زندگی کو چوپائیوں کی مانند محض کھانے پینے اور چلنے پھرنے تک ہی محدود کرلیتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال اللہ تعلی کے اس فرمان کے مصداق ہے ”لھم قلوب لایفقہون بھاولھم اعین لایبصرون بھا ولھم اٰذان لایسمعون بھا اولٰءِک کالانعامِ بل ھم اضّل“یعنی ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اوران کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں‘یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں‘بلکہ یہ ان سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں (اعراف۔179)۔ایک انسان اگر صحیح اور غلط میں تفریق نہ کرسکے‘سچ اور جھوٹ کے مابین تضاد کو محسوس نہ کرسکے‘ہدایت اور ضلالت کو پہچان نہ سکے تو وہ انسانی وضع میں کسی چوپائے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔
انسان اپنی ذات کا محاسبہ (Introspection)کرتا رہے تو بہت سی خامیوں سے اپنادامن جھاڑ سکتا ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ میں نے جب بلوغت(Teen age) کی دہلیز پر قدم رکھا توکئی طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگیا‘سنگیت اور ناچ گانے کا اس قدر دیوانہ ہوگیا کہ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا‘ رات رات بھر گھر سے باہر رہ کر لڑکوں کے ساتھ گھپے مارنااوروقت ضائع کرنا میری عادت بن چکی تھی‘تھوڑا تھوڑا سگریٹ نوشی کا عادی بھی ہوگیا تھا‘گھر کی معاشی حالت قدرے خراب ہونے کے باوجود ادھر اُدھر سے پیسے جوڑجوڑ کرآوارہ گردی میں اُڑاتاتھا‘لوگ تعنے دیتے تو والدین کو کافی اذیت پہنچتی تھی‘وہ مجھے ہرممکن سمجھاتے مگر بے سود‘میں کسی کی سنتا تھا اور نہ میری نظر میں کسی کی کوئی قدرومنزلت تھی‘شائد اس لئے کہ میں اُس عمر میں داخل ہوچکا تھا جسے سائنس کی زبان میں ”age of frustration“ یعنی پاگل پن کی عمر کہا جاتا ہے۔اس عمر میں انسان کے پاؤں باہرجائے تو سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے‘انسان کو ناصح قاتل دکھتا ہے اور خیر خواہ جاہل‘نیکی میں دم کھٹتا ہے اور شرافت دقیانوسی معلوم ہوتی ہے۔یہ سب میرے ساتھ ہوا‘آج سوچتا ہوں تو روح کانپ اُٹھتی ہے‘کلیجہ منہ کوآتا ہے‘آنکھیں ہیں کہ بے تحاشہ برستی ہیں اورتو اور پیچھے مُڑ کر دیکھنے سے ڈر لگتا ہے۔ ؎
عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
جو کہا وہ یادِ ماضی تھا‘بلکہ یادِ ماضی سے جڑی محض ایک کڑی تھی جبکہ آج اللہ تعلی کے فضل وکرم سے میرے صدہا دینی اور ادبی مضامین اور مقالے ریاستی اور غیر ریاستی جریدوں اور رسالوں میں شائع ہوکرلوگوں سے دادِ تحسین پاچکے ہیں۔لکھتا ہوں اور مسلسل لکھتا ہوں‘ مختلف جریدوں کے لئے وقتافوقتااور ہفتہ روزہ دینی مجلہ”مسلم“ کے لئے ہفتہ وار بنیادپر۔سن 2017 میں ”واقعہ کربلا“ کے زیرِ عنوان 28 صفحات پر مشتمل ایک چھوٹا سا کتابچہ بھی تصنیف کیاہے۔یہ سب کہنے کا مقصد شیخی بکھارنا ہرگزنہیں بلکہ اس بات کی محض وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب انسان غوروفکر‘تدّبر اور فہم وادراک سے کام لے تواللہ تعلی اس پر سینگڑوں راستے کھول دیتا ہے‘جب انسان گمراہی کے اندھیروں سے نکل نے کی کوشش کرے تو اللہ تعلی اس کے لئے ہدایت کے چراغ جلاتاہے‘جب انسان اپنی سماعت اور بصارت کو صحیح معنوں میں بروئے کا ر لاتا ہے تو یہ ”اسفل سافلین“ سے کافی اوپر اُٹھ کر زندگی کی اعلیٰ قدروں سے آشنا ہوجاتا ہے۔
ایک بار سنجیدگی کے ساتھ اپنا محاسبہ کرے تو انسان وقت کی بہتی دھارا کو بھی موڑ سکتا ہے‘انسان ہمت سے کام لے اور اپنی قوتِ ارادی (will power)کومضبوط کرلے تو کسی بھی بدِ بلا سے بآسانی خلاصی پاسکتا ہے‘حق کی اور رجوع کرلے توبڑی سے بڑی ضلالت کو بھی معدوم کرسکتا ہے۔میں عرض کرچکا ہوں کہ میں نے جب بلوغت کی عمر میں قدم رکھا تو کئی طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوگیا‘لوگ میرا رنگ روپ دیکھ مجھے ہر وقت کوستے رہتے‘گھروالے اور باقی عزیزو اقارب نالاں رہتے‘مگر میں تھا کہ ہرسُنی کو ا ن سُنی کردیتا۔ تعلیم میں بھی قدرے کمزور تھا‘یہاں تک کہ ایک بار تعلیم سے کنارہ کشی بھی کرلی تھی اور ایک مقامی درزی کے یہاں کپڑے سینے کا کام شروع کیا تھالیکن یہ بلوغت سے پہلے لڑکپن کا واقع ہے.
ایک سال تعلیم سے دور رہنے کے بعد جب دوبارہ اسکول میں داخل ہوا تو اردو اور انگریزی حروفِ تہجی میں الجھ کر رہ گیا۔اس کے بعد ایسے تیسے جب کچھ جماعتیں آگے بڑھا تو بلوغت میرے استقبال کو آموجود ہوئی اور اُن تباہیوں سے دوچار ہواجن کا ذکر قبل ازیں گزر چکا۔ اسی اثنا میں ایسا ہوا کہ اسکول کے ہر روز صبح کے پروگرام (morning assembly programme)میں میرا نام لکھ لیا گیاجس میں بچے مختلف موضوعات پراطہارِ خیال کرتے تھے۔کچھ بچے تلاوتِ قرآن کرتے اور کچھ حمدوثنا یانعتِ پاک پڑھتے۔ میرا نام جب لکھ لیا گیا تو چار بجے چھٹی کے بعد گھر آکر میں سوچ کے ساغر میں ڈوب گیا اور ادھراُدھر غوطہ زنی کے بعد میرے ہاتھ لفظوں اور خیالات کے کچھ ایسے گوہر آئے کہ جنہیں صفحہ قرطاس پر اُتار نے کے لئے میں نے قلم ہاتھ میں لیا اور ٹوٹی پھوٹی زبان میں ان لفظوں اور خیالات کوسپردِ قلم کیا۔ جب لکھ چکا تو ایک منظوم تخلیق (غزل)میرے ہاتھ میں تھی جس کا املاء درست تھا اور نہ عروض‘اس کے باوجود میراجوش آسمان کو چھو رہا تھا۔
میں اپنی اس ٹوٹی پھوٹی تحریرکو ہاتھ میں لے کر مقامی مسجد کے امام کے پاس گیااوراُن سے املاء درست کرایا۔پھر اگلے روز جب اسکول میں سب کے سامنے میں نے اس منظوم تخلیق کو پڑھا تو پورا اسکول تالیوں سے گونجھ اُٹھا‘بچے تو بچے اساتذہ کرام بھی مسحور ہوگئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جس نے میری سوچ کو بیدار کیااور میں نے اپنا محاسبہ کرلیا‘لیکن بدقسمتی سے اُس سال میں دسویں جماعت میں فیل ہوگیااور پانچوں مضامین میں میری کارکردگی قدرے مایوس کُن رہی جو میرے لئے کسی صدمے سے کم نہ تھاجس سے میں رنجیدہ ضرور ہوا لیکن ناامید نہیں۔یہ دوسرا موقع تھا جب میں نے اپنے من میں ڈوب کر اپنی شخصیت کو سہارا دیااور ایسا ابھر آیا کہ ایک دم سے وہ ساری بری عادتیں ترک (avoid)کردیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔جس کے بعد میں ہر روز پندرہ سے لے کر اٹھارا گھنٹے پڑھائی کرنے لگااور ساتھ ساتھ لکھتا بھی رہا۔اس دوران میں کئی ادبی اور دینی رسالوں سے متعارف ہوا جن میں ”خاتونِ مشرق‘اردو دنیا‘ پیام‘زندگی نو‘انشاء وغیرہ شامل ہیں۔میرا مطالعہ بڑھتا رہا‘کئی علماء سے فیض یاب بھی ہوتا رہا‘اردواورانگریزی کے ساتھ ساتھ عربی اورفارسی زبان سے بھی استفادہ کرتا رہایہاں تک کہ 2012میں میری پہلی تحریر روزنامہ ”کشمیر عظمیٰ“میں شائع ہوئی۔اُس وقت سے لے کر تاایں دم مسلسل لکھ رہا ہوں۔
الغرض انسان غور وفکر اور تدبر سے کام لے تواپنی زندگی کو ایک صحیح رُخ عطا کر سکتا ہے۔اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کومثبت سانچے میں ڈال کرنئی اور بہتر شکل میں تبدیل کرسکتا۔ ؎
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن