کالم نویس: ڈاکٹر مجددی مصطفیٰ ضیفؔ
سرینگر کشمیر
9541060802
لوک ادب کا انگریزی زبان میں ایک نام فوک لور(Folk lore) بھی ہے،فوک کے معنی لوگ یاعوام اور لور کے معنی علم کے ہیں اس طرح (Folk Lore) یالوک ادب کے معنی ہوں گے عوام شناسی یا عوام شناسی کا علم۔لوک ادب زبانی ادب(Oral Literature) کی ایک ایسی قسم ہے جس میں کسی قوم کی تاریخ،مذہب اور تہذیب وثقافت کی دھندلی سی تاریخی عکاسی کے ساتھ ساتھ اس کے غم،خوشیاں،آرزوئیں،خواہشات،حسرتیں،تمنّائیں،فتح وشکست الغرض ان تمام عناصر کامجموعہ ہو تا ہے جو کسی ایک قبیلہ یا قوم کے صدیوں کے سفر میں رونما ہو تے ہیں۔
لوک ادب کی نما یاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ زبان زد عام ہو نے کے سبب ایک نسل سے دوسری نسل تک سینہ بسینہ منتقل ہو تا رہتا ہے جبکہ تخلیقی ادب کتابوں،رسالوں اور مسودوں وغیرہ کی صورت میں شاعر اور ادیب تحریری شکل میں چھوڑ جاتے ہیں اور کسی بھی زبان کے تخلیقی ادب کی عمر اس کے لوک ادب کے مقابلے میں بہت ہی کم ہوتی ہے۔جس کی بنیادوں پر یہ اپنی عمارت استوار کر تا ہے،دوسری بات یہ ہے کہ اس میں ہم کسی بھی مصنف کے تجر بات ومشاہدات اور تصورات کے اظہار یا اسلوب کے یکساں پیرائے کا مشاہدہ زباں وبیان کے حددود کے بغیر ہی کرتے ہیں جبکہ لوک ادب ہر علاقے زبان اور بو لی سے تعلق رکھنے والے گرو ہوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہو تا ہے۔
لوک ادب کی بقا کا دارومدار اس کی زبان بولی یا ثقافت کی بقا کے ساتھ منسلک ہو تا ہے،جو زبان یا ثقافت جتنے عرصے تک زندہ رہتی ہے یا رہنے کی سعی کر تی ہے اس کا ادب بھی اس کے ساتھ نسل در نسل گیتوں،کہانیوں،قصّوں،یا ناچ وموسیقی کی صورت میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اگر اس کا کوئی ایک حصّہ بھی انسانی یا داشت سے نکل جا ئے تو یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جا تا ہے۔
قدیم زمانوں یا معا شروں میں جب تفریحات کے دوسرے یا جدید وسائل دستیاب نہیں ہو تے تھے اس عہد میں لوک فنکار ذہنی مسرت یا سکون کے حصول کی غرض سے داستان گوئی یا گیت کاری کے ساتھ ساتھ فن رقص و موسیقی کی با قائدہ تر بیت ان فنون سے وابستہ ماہرین سے لیا کرتے تھے اور جب وہ اس فن میں مہارت حاصل کر لیتے تو پھر اپنے فن کا اظہار متعلقہ مہاشرے یا ثقافت میں مروج رسوم ورواج کے عین مطابق سامعین کے آمنے سامنے کیا کرتے تھے، مگر اس اظہار میں انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوتا تھا کہ وہ جو کچھ بھی قصہ، کہانی، گیت،ضرب المثل یا کہا وت وغیرہ کی شکل میں بیان کر رہے ہیں اگر وہ عوام یا سا معین و حاضرین کو پسند آجائے تو پھر اس طرح کا ادب جغرا فیائی حدود کو پھلانگ کر دور دیسوں تک لو گوں میں مقبول ہو جائے گا۔
قدیم ثقافتوں میں لوک فنکا ری کی روایت ان سے وابستہ ہر فرد زندہ رکھتا تھا یا دنیا کے بہت سارے قبائل میں یہ رواج ہنوزقائم ہے۔اسی طرح بہت سارے قبیلوں یا قوموں میں (SOCIAL STRATIFACTIONْؓ)کا عمل وقوع پزیر ہونے کے ساتھ ہی سماج کے ایک طبقے نے اس فن کو پیشے کے طور پر اپنا کر آگے بڑھایا مثلاً اگر جموں کشمیر کے حوالے سے بات کی جائے تو اس علاقے میں بولی جانے والی گو جری،پہاڑی وغیرہ زبانوں میں ہر شخص ماضی قریب تک اپنے لوک ادب کا کچھ نہ کچھ حصّہ سینے میں محفوظ رکھتا تھا یا کہیں کہیں ایسا اب بھی ہے مگر کشمیری زبان بولنے والے طبقے میں بانڈھ اور ڈوم وغیرہ وہ گروہ ہیں جنہوں نے اس فن کو پیشے کے طور پر قبول کیا۔
خیر ان روایت پسند لوگوں کے ریت و رواج کچھ بھی ہوں تاہم لوک ادب کی ایک بات مشترکہ ہے کہ اس کا انحصار یاداشت پر ہے جو نسل در نسل ا س کی بنیاد پر منتقل ہو تا ہے اور انتقال کے اس طویل عمل میں معاشرے کے بدلتے اقدار کے ساتھ ساتھ جزب و انجزاب، اخذو قبول اور تغیر وتبدل کے کئی مراحل سے گزر تا ہے اور یہ عمل ہر دور میں لگاتار اور مسلسل ہو تا رہتا ہے۔ لوک ادب میں جو گیت،کہانیاں،کہاوتیں،بجھارتیں،محاورے، موسیقی،رقص وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سارے کا سارا عوامی ادب ہے عوامی اس لیے کہ یہ کسی فرد واحد یاجماعت کی سوچ و فکر کا نتیجہ نہیں ہو تا بلکہ اس کے پس پشت عوام کی پوری معاشرتی،تمدنی،مذہبی و ثقافتی اور سیاسی تاریخ کے صدیوں کے تجر بات ومشاہدات ہوتے ہیں الغر ض یہ کسی بھی لسانی ومعاشرتی گروہ کے ماضی کا آئینہ ہوتاہے جس میں ہم اس کی تہذیب وثقافت اور نشیب وفراز کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔یہ ادب عوامی کر دار،ذہن وفکر،طرز حیات، نفسیات بلکہ یوں کہ لیجیے کہ پوری تہذیب کا دائرہ ۃالمعارف ہوتا ہے جس کے مطالعے سے ہم عوام کے ذہنی معیار اور قومی مزاج سے شناسائی حاصل کر سکتے ہیں نیز اس سے بہتر قد یم ترین معاشروں کے عرفان کا کوئی اور ذریعہ ہو ہی نہیں سکتا۔
لوک ادب کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی ایک مذہب،عقیدہ،نظریہ اور رنگ و نسل کا پابند نہیں ہوتا اسی لیے اس کا وارث بھی ہر فرد ان تمام پابندیوں سے بالا تر ہو کے ہوتا ہے نیز اس کا واسطہ یا تعلق ہر ذہن دل یا روح سے ہوتا ہے اور یہ معاشرے کی اس سادگی پسند صورت حال کا عکس پیش کر تا ہے جس میں کسی طرح کی بناوٹ،تصنع اور ابہام و مبالغہ نہیں ہوتا کیوں کہ یہ خود بہ خود اس قسم کے عناصر سے پاک و صاف ہوتا ہے اسی لیے یہ ادب امر و لافانی ہوتا ہے اور جتنی بار سناجائے قاری یا سامع کواتنی ہی بارکسی نئی کیفیت یا لذت کا احساس ہوتا ہے علاوہ ازیں یہ ادب ہماری زندگی کو مسرت و عشرت کے رنگوں کے ساتھ ساتھ ان کے گلابوں کی بینی بینی خوشبو بھی مہیا کر تا ہے۔
مورخین کا خیال ہے کہ 400ق۔م کا سارے کا سارا ادب زبانی یا لوک ادب کی ہی صورت میں تھامگر 400 سے 300 ق۔م کے درمیانی ہزاریے میں مصر اور سمیری تہذیبوں کے علاقے میں رسم الخط کی ابتداء بھی ہوئی اور فن تحریر نے کسی قدر ترقی بھی کی اس وقت سے لے کراس علاقے میں ادب کے علاوہ دوسرے شعبہ جات جن میں تجارت و کاروبار، عدلیہ وغیرہ شامل ہیں میں تحریر کی صورت میں مستفید دستا ویزات مل جاتی ہیں۔آگے چل کر جب نوع انسانی تاریخ کے اس دور میں داخل ہوئی جب دنیا کے مختلف علاقوں اور بر اعظموں ایشیا، شمالی افریقہ،بحیرہ روم(MEDITERRANEAN) کے علاوہ تحریر کا فن تقریباً دنیا کے ہر خطے میں پروان چڑھا اور اس کے نتیجہ کے طور پر بڑی تیزی کے ساتھ تحریری ادب سامنے آنے لگا۔
مگراس سب کے باوجود بھی لوک ادب کی ترقی و اشاعت میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی، تحریر اور تحریری ادب کے آ غاز و ارتقاء و نشونماکی صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کے شانہ بہ شانہ لوک ادب بھی ہر عہد میں اپنی اہمیت اور وجود کا اظہار کرتا رہا نیز لوک ادب کو سینہ بہ سینہ محفوظ کر کے ہم تک پہنچا نے میں عوام کے ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے طبقے نے مرکزی کر دار ادا کیا۔
جیسا کہ میں نے کہا کہ تحریری ادب کی ابتداء لوک ادب کے مقابلے میں بہت بعد کے دور میں ہوئی جس کی تاریخ 400ق۔م سے آگے نہیں جاتی مگر لوک ادب کی ابتداء انسان کی زبان کی ابتداء کے ساتھ ہی ہو گئی تھی یا دوسرے لفظوں میں اس طرح کہ لیں کہ آدم ؑ اور حوّا کے زمین پر اتارے جانے کے بعد انہوں نے آپسی محبت و فرخت میں جس طرح کے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہو گا وہ ہمارے لوک ادب کے کھلتے الفاظ تھے۔
تحریری ادب کی ترقی و نشونما میں جس طرح مختلف قسم کی تحریکوں نظریوں اور رجحانات نے اہم اور مثبت کردار ادا کیا اور کر رہا ہے اسی طرح لوک ادب کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی نشو نما میں کسی قسم کی ادبی تحریک،نظریہ یا رجحان وغیرہ کا کوئی حصّہ نہیں ہے،بلکہ اس کی نشو نما میں قدیم شہری اور قبائلی تہذیب کے ہر چھوتے،بڑے گروہ نے آپنے آپنے طریقے سے حصّہ لیا اس کے شانہ بہ شانہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ثقافتی تغیر و تبدل کے اثرات بھی لوک ادب کی ترویج و ترقی میں اسے ہر عہد کے معاشروں کے تقاضوں کے عین مطابق ڈھال کر اپنا کر دار ادا کر تے رہے۔
لوک ادب کے ذیل میں انسانی تاریخ اور علوم و فنون میں تبدیلی واقع ہونے کی بدولت دو طرح کی تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، ایک یہ کہ کبھی کبھار مشاہدے میں آ یا کہ ایک فن کار(کہانی کار، داستان گو یا گیت کار) یافن کاروں کا ایک مخصوص گروہ کچھ ایسی تکنیکی ایجادات بھی کر تا رہا جن کی بدولت وقت کی گزران کے ساتھ ساتھ نئے ادبی اسا لیب(New literary forms)سامنے آ ئے دوسری یہ کہ لوک ادب کا کچھ سر مایہ بہت ساری تاریخی تحریکات اور انقلابات کی بدولت یا غیر ملکی تسلط کی وجہ سے یا فن کاروں کی کمی کے سبب دھیرے دھیرے اپنی اہمیت کھو کر عوام کے ذہنوں سے اتر گیا۔یہ دوسرا سبب لوک ادب کی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے کرب ناک المیہ ہے جس نے نہ جانے نوع انسانی کے کتنے ہی تلخ و شیریں تجر بات اور یادگاریں مٹا دیں جن کا محفوظ ہونا بہت ہی نا گزیر تھا۔
500 سے 600ق۔م کے عہد میں جب تحریری ادب کی ابتداء مصر و سمیری تہذیبوں میں ہوئی اس وقت دنیا صرف لوک ادب سے ہی آشناتھی پھر ہزار سالہ مدت کے وسیع عرصے میں تصنیفات اور مصنفیں چند ایک جگہوں پر سامنے آئے،کوئی یہ نہ سمجھے کہ تصنیفات کی کثیر تعداد کا عمل کسی جادوئی کار نامے کے ذریعے وقوع پزیر ہوا۔علاوہ ازیں تقریباً دنیا کے ہر حصّے میں لوک ادب یا لوک کہا نی کار، لوک گیت،رزمیہ مغنی(Epic singers)نے ہی معاشرے پرتسلط بنائے رکھا اور تمام تر ادبی اظہارات کا وسیلہ یہی ادب رہا۔
دنیا کے تمام سماجوں نے موجودہ عہد کی ہی طرح قدیم،وسطی اور ماقبل تاریخی دور میں عظیم بادشاہ،مذہبی رہنما،روحانی شخصیات،جنگی بہادراور سپہ سالار پیداکیے جنہوں نے آپنے اپنے عہد میں معاشروں یا لوگوں کے لیے تحریک کا کام کیا اور ان لوگوں کے کار ناموں نے عوام کے ذہن پر ایسے نقش ثبت کر دئیے جن کی بنیاد پر انہوں نے ان سے(Myth)افسانے اور کہانیاں وغیرہ منسوب کر کے لوک ادب کی تخلیق کی۔
ادب کوئی بھی ہو تحریری یا لوک وہ اپنے عہد معاشرے اور ثقافت کی ترجمانی یا عکاسی کر تا ہے نیز اپنے معاشرتی حدود سے نکل کر اس کی تخلیق، تفہیم و تشریح ممکن ہی نہیں،اسی اساس پر ادب اپنی ثقافتی روایات کو ایک معاشرے علاقے یا نسل سے دوسرے معاشرے علاقے یا ثقافت تک کی ترسیل کے عمل میں پیش پیش رہتا ہے اور اس ثقافتی نمائندگی،اظہار وترسیل کے عمل میں لوک ادب نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔لوک ادب میں ہمیں منظوم و منثور شکل میں مختلف مظاہر فطرت مثلاً دریاؤں،پہاڑوں،سمندروں ِ ریگستانوں،پرندوں، جانوروں،درختوں وغیرہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ پیدائش و موت سے جڑے ہوے رسوم و رواج،سماجی تفریحات کے موقوں پر نبائے جانے والے رواج، جنگوں اور مہمات کی روداد،بادشاہوں کے محلات کی جھلکیاں،لباس کھان پان،نشست و بر خاست کے طریقوں وغیرہ کا اظہار ملتا ہے۔ ان میں بہت سارے عناصر یا قبائلی سوچ و فکر کے طریقے ایسے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہوتے دور جدید کے تحریری ادب کی زینت اس دور کے معاشرے کا حصّہ بن گئے ہیں۔
زبانوں کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ یہ حقیقت عیاں کر دیتا ہے کہ تحریری ادب نے اپنے خیا لات قصے کہا نیاں وغیرہ لوک ادب سے ہی مستعار لے کر تخلیق کے نئے پیرائیوں یا سانچوں میں ڈھالا اور تحریری ادب کے کارواں کو آ گے بڑ ھایا اور پھر جیسے جیسے یہ ادبی کار واں آ گے کی طرف بڑ ھتا گیا اس کے ساتھ ساتھ اپنی بنیادیں یا جڑ یں مضبوطی سے معاشرے میں پیوست کر تا گیا،مگر ا پنی اساس کی مضبوطی اور پھیلاؤ کے باوجودما بعد جدید دور میں بھی تخلیقیت کے مرحلے سے گزر نے کی خا طر اسے لوک محا ورات،روایات،ضرب المثال وغیرہ کا سہارا لینا ہی پڑ ھتا ہے۔
اردو ادب کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس میں بہت ساری ایسی داستانیں ہیں جن کی بنیاد لوک کہانیوں اور کرداروں پر رکھی گئی ہے، ان داستانوں کا کل بیانیہ لوک ادب سے ہی ماخوذ ہے۔یہی حال دنیا کی دوسری بڑی اور قدیم داستانوں کا بھی ہے۔ اسی طرح ترسیل و ابلاغ کے جدید ترین ذرایع ریڈ یو ٹیلی ویژن وغیرہ کے وسیلے سے لوک گیت آپنے ذائقے، رس اور رنگ سے سامع کی سماعتوں میں آج بھی مٹھاس اور لطف گھولتے ہیں۔درحقیقت شہریت،صارفینی تہذیب اور مغر بی معاشرت کے اثرات سے جہاں عام لوگوں کا عوامی ادب سے رابطہ، رجحان اور دلچسپی کم ہوئی ہے وہیں دوسرے تاریخی ورثوں کی طرح لوک ادب بھی کتابوں،اخبارات اور رسائل وغیرہ کے علاوہ (Electronic Media) کی زینت بنا کرکافی حد تک محفوظ بھی کر لیا گیا ہے۔اگر ہندوستان کی بات کی جائے تو اس ملک میں ابھی بھی دور دراز دیہی علاقوں قبائلی و پہاڑی ثقافتوں میں ایسے لوگ سکونت پزیر ہیں جو ہنوز اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور جن کے ہاں آج بھی لوک کھیل،گیت،ناچ،قصے کہانیاں وغیرہ رائج ہیں اور بزرگوں سے جوانوں اوربچوں تک زبانی سفر کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
دور جدید (Post Modern cultural condition)کا عہد ہے جو ادب اور ادیب سے اپنی ثقافتی جڑوں کی تلاش و جستجو یا باز یافت،تحفظ اور ادب میں انہیں شان سے بر تنے کا تقاضہ کر تا ہے جس کی بدولت لوک ادب کی اہمیت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں مختلف ادبی،سیاسی،ثقافتی نیز سرکاری و غیر سر کاری تنظیموں و اداروں کی طرف سے اپنی اپنی ثقافتی شناخت بر قرار رکھنے کے لیے لوک تہوار وغیرہ منائے جاتے ہیں جن کی بدولت جدید زندگی کے پیچیدہ مسائل سے الجھا ہوا انسان کچھ راحت وسکون محسوس کر تا ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے عہد کی نسل اپنی قدیم روایات کو بھی ذہنوں میں محفوظ کر رہی ہے جو خوش آئند بات ہے، کیوں کہ اس عمل سے ہمارا وہ تاریخی ورثہ جو لوک ادب کی صورت میں ہے نہ صرف عمل فراموشی سے بچ جائے گا بلکہ ادبی اظہارات کے نئے پیرائیوں میں ڈھل کر کافی حد تک محفوظ بھی ہو جا ئے گا۔(ختم شُد)
نوٹ:(کالم نویس ادب میں ڈاکٹریٹ،اسکالر وبراڈکاسٹر اور شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں)