خالد قمر
[email protected]
جب سے عبد القدیر کی شادی زینہ سے ہوئی تب سے اس کی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی۔دن میں گلزار اینڈ سنز کے دکان پر چار بار سگریٹ پینا اور سیر سپاٹے کےلئے دوستوں کے ساتھ جانا اور محلے کے بچوں کو مٹھائی مفت میں بانٹنا کچھ ایسی باتیں تھیں جو اب زینہ کے آنے کے بعد نہیں ملتی۔
زندگی میں اتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا شاید ہی عبدالقدیر نے اپنی زندگی میں سوچا ہوگا۔ جب سے محکمہ تعلیم میں چپراسی کی پوسٹ سنبھالی ہے تب سے شاید ہی کبھی دن میں دو بار سگریٹ پی ہو۔ گاڑی میں سوار ہونے کے بجائے پیادہ ہی چلنا اس کے لئے مفید ثابت ہورہا تھا۔ شام کو آتا اور بیگم کے سامنے حاضر ہوتا کہ آج بس کے بجائے آٹو میں آیا ہوں اور آج پندرہ روپے زیادہ دینے پڑے۔زینہ بھی کیا جانتی تھی کہ اس کا شوہر نہ ہی آٹو میں سوار ہوتا ہے نا ہی بس میں۔زینہ بھی ایک دم گرم لہجے میں کہتی او قدیر چپراسی کل سے اگر بس میں نہیں چڑھا تو تیری خیر نہیں۔ بڑوں سے سنا تھا کہ مرد عورت پر ظلم و ستم ڈھا رہا ہے لیکن یہاں تو ایک عورت مرد پر ظلم و جبر کے خنجر سے کاٹ رہی تھی۔ گاؤں والے اس گھر سے اچھی طرح واقف تھے ان میں سے بعض تو عبدالقدیر کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تعلیم بھی دیتے تھے لیکن یہ بھی لا علمی کے شکار تھے کہ عبدالقدیر صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ کھڑا ہے باقی روح اور عناصر خمسہ زینہ کے کہنے پر کام کرتے تھے۔
عبدالقدیر نے ایک بار کسی دکان سے دس روپیہ کی آیس کریم خرید کر چپکے سے کھانے کی کوشش کی تھی تبھی صمد میر جو اس سے نفرت کرتا تھا زینہ کو خبر دینے میں کامیاب ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے زینہ کا چہرہ غصے کے سبب لال ہوگیا اور اب کیا ہونے والا تھا اس کی خبر اگر قدیر کو ہوتی تو شاید وہ گھر آتا۔ زبان کو ایس کریم کا لال رنگ ہٹانے میں کامیاب عبدالقدیر جب گھر پہنچا تو گھر والی نے پہلے سے ہی دروازہ بند رکھا تھا۔عبدالقدیر کے لاکھ کہنے پر بھی زینہ نے دروازہ نہیں کھولا۔عورت کو جلال میں آتے دیکھنا میں نے خود پہلی بار دیکھا تھا اور وہ بھی دس روپیہ پر۔بہرحال باورچی خانے سے ایک ہی آواز بار بار گونج رہی تھی کہ آج رات وہی گزاروں جہاں سے دس روپے لائے تھے ۔ گاو خانے کے سامنے جیسے کوئی لاش پڑی تھی گاؤں میں خبر گشت کرنےلگی کہ قدیر کا انتقال ہوچکا ہے اور یہ خبر جب زینہ تک پہنچی تو اس نے زور سے کہا کہ ایسے خاوند سے اکیلا ہی رہنا اچھا ہے۔جب لوگ اس کے اردگرد جمع ہوگئے تاکہ اس کو غسل کےلئے غسل خانے لیا جائے ۔عبدالقدیر کو اٹھانے کی دیری تھی کہ اس نے اپنے ان ٹانگوں میں حرکت کی جن میں اب نہ جان تھی اور نہ چلنے کی رفتار۔
عبدالقدیر دل کا اچھا تھا زینہ سے اتنی محبت تھی کہ اس کی ایک تصویر جس میں زینہ کا چہرہ کم اور بال اچھے دکھائی دیں رہے تھے جیب میں ہمیشہ رکھتا تھا۔دفتر سے نکلتا تو اس تصویر کو دیکھ کر کہتا "تو میری زینہ میں ترا قدیر” اور اس طرح دس کلومیٹر کا سفر طے ہوپاتا تھا۔اس کے برعکس زینہ کے دل میں قدیر کےلئے نفرت اور زیادہ بڑھتی جا رہی تھی۔ایک دن زینہ کو بخار ہوا اور بخار کے سبب وہ بے ہوش ہوگئ تو قدیر نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو زار و قطار رونے لگا۔اس محلے میں حکیم جانثار احمد بھی رہتا تھا کسی نے ان کو اطلاع دی کہ زینہ کی حالت بہت خراب ہے تو حکیم صاحب دوڑ کے چلے آئے اور شربت وغیرہ پلانے کے بعد قدیر سے کہا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔لیکن قدیر کو اپنی جان سے عزیز زینہ کی جان تھی رات بھر اس چہرے کی طرف دیکھتا رہا جو چہرہ اس کو پسند نہیں کرتا تھا۔خون کی بہت زیادہ کمی کے سبب زینہ کو ایک ہفتہ لگ گیا پھر سے صحت یاب ہونے میں۔اور جب یہ اٹھ کر چلی تو دیکھ کر حیران ہوتی ہے کہ بچوں سے لیکر بڑوں تک سب زور زور سے رو رہے تھے اور کہہ رہے تھے ” کہ ہم نے ایسی محبت نہیں دیکھی کہ جسم میں ایک قطرہ خون نہ ہونے کے باوجود بھی جتنا تھا سب بیوی کے نام کردیا۔
اور اس بیوی کے نام جس نے کبھی بھی اس کو شوہر تسلیم نہیں کیا۔”
بیچاری زینہ آہستہ آہستہ چل کراس لاش کے پاس آپہنچی گویا جو لاش اس انتظار میں بیقرار تھی کہ کب اس چہرہ کا آخری دیدار نصیب ہو جس کو آج تک یہ جیب میں رکھ کر اس سے باتیں کرتا رہتا تھا۔
زینہ نے جونہی لاش سے چادر ہٹائی تو اس چہرہ کو دیکھا جس کےلئے اس کے دل میں نفرت تھی۔اب اس کے دل میں قدیر کے لیے دل میں محبت جاگ اٹھی تھی لیکن قدیر اب اس دنیا میں نہیں تھا۔ اور اب بس اسکی ٹوٹی سی یادیں باقی رہ گئی ہے۔