از قلم منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط 9797217232
یہ بات ہر مزاج کے سامنے مسلمہ حقیقت ہے کہ بابا آدم ؑ کے مبعوث ہونے کے بعد وجود کائنات میں جو مکمل رنگ اظہار ہوا وہ صرف از صرف حضرت حوا ؑ کے آنے سے. تب سے آج تک اگرچہ وجود زن سے ہی کائنات کے تصور میں رنگ کھل کھلا رہا ہے لیکن محمد مکی و مدنیﷺ کے آنے سے پہلے اگر تاریخ کی ورق گردانی کریں گے تو جس ظلم و ستم سے یہ صنف نازک دو چار ہوئی اسے پڑھ کر ہر طبعیت غم کے مارے زخمی ہوجاتی ہیں. لیکن داعی رحمت محمد ہاشمیﷺ نے اپنے کردار کے عظمت کے سبب اس جہلت کی آندھی کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے چراغ ہدایت کی فضا ہر زمانے کے لیے قائم کی. اس کے بعد اگرچہ ٹھوس لفظوں سے وجود زن کا مقام و عظمت مرتب ہوا تھا لیکن ہر دور میں اس درس کو بھلا کر کچھ جہل صفت انسانوں نے اس وجود کائنات کو جوتے کا تسمہ ہی سمجھ کر اس کی شان کو پامال کیا. جس عظمت و مقام کی مالک اسلام جیسی مبارک تعلیم نے اسے ٹھہرایا تھا اس خبر سے بے خبر ہوکر یہ عورت آج بھی ظلم کے تپھیڑوں کی شکار بنی. چونکہ جہاں ہر قلم و زبان نے چیخ چیخ کر اس کے عظمت و بلندی کا نعرہ لگایا وہاں پر جیسے اکثر دل آہن نظر آتے ہیں . پورے کائنات میں جہاں عورت ذات ایک یا دوسرے مسائل کی شکار ہیں وہی پر کشمیر کے ہواوں کا رخ بھی اس معملے میں منفرد مزاج کا حامل ہیں.
کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کرکے انسان اس بات سے واقف ہوتا ہیں کہ یہاں بھی یہ عورت ہزاروں ظلموں کی سزاوار بنی. ایام ماضی میں اگرچہ بیٹی کا جنم لینا برائی سمجھی جاتی تھی اور اس کے درس وتدریس کی بات کسی عیب سے کم نہ تھی لیکن آج بھی اس مزاج کی بہت سارے سماجی حلقوں میں موجود ہیں. آج بھی کچھ لوگ بیٹی کے پڑھائی کے بارے میں منفی رخ کا اظہار یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ موجودہ دور کے حالات بیٹی کے باہر نلکنے کی اجازت نہیں دیتے. جو کہ سراسر جہالت کی وضاحت ہیں. ان لوگوں کے لیے کشمیری زبان کا ایک محاورہ بلکل معنی خیز ہیں” وچھس اگر قلف آسہ دکہ دتھ پکتن لچھس منز” گویا آپ بھی بطور ذمہ دار پرورش میں اپنا حسین کرادار نبھائے اور حسن ظن رکھ کر حلیمانہ سلوک سے پیش آئے. بہرحال ابتدائی زندگی جہاں یہ عورت بہت مصیبتوں سے دو چار ہوتی ہیں وہی پر جب شادی کی دنیا قدم رکھ ایک ایسی قربانی اور بہادری کا ثبوت یش کرکے میکے کو رخصت اور سسرال کو گلے لگاتی ہیں ایک نیا دنیا بسانے کے امید بناتی ہیں. لیکن اسے کیا خبر ہوتی ہیں کہ اب وہ غلامی کی دیواروں میں پناہ گزین ہورہی ہیں اور بے شمار مظالم سے اسے دوچار ہونا ہیں. ایک ماں باپ اپنی بیٹی کے لیے ہر معملے میں خیر خواہ ہوتا ہے اور اس کے تمام جزباتوں کا قدر دان ہوتا ہیں لیکن جب کوئی اور لڑکی بحثیت بہو اس کے گھر میں قدم رکھتی ہے تو مزاج میں خود بہ خود دورخی پیدا ہوتی ہیں. نظروں اور نیتوں میں بدالاو اچانک نمود ہوتا ہیں. تاریخ کے روایت کو دوہراتے ہوئے” نلہ وٹھ” کا مزاج قائم ہوتا ہیں. ہر ایک جیسے نفسیاتی تزبزب کا شکار ہوجاتا ہے.
کل کی بیٹی جسے رحمت کی نظیر سمجھتے تھے اب بہو بن کر جیسے گناہوں کا پیکر سمجھنے لگے. اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہیں کہ اکثر مزاج حسن ظن کے قائل نہیں ہے معمولی خطاوں کو بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں. اس بات کو اہل فہم حضرات خیال سے اتارتے ہیں کہ یہ صنف نازک ناقص العقل ہیں. جس کے سبب اس سے سہو و خطا ہوسکتے ہیں . لیکن ہر بیٹی کو قریباً سسرال میں تنگ دنیا دیکھنا پڑھتا ہیں. اگرچہ ہر کوئی بات صبر کے دامن میں چھپاتی ہے لیکن وہ باتیں جو مزاج کے خلاف گزرتی ہیں اس کے احساس کو کھروچتی ہے. سسرال کا ظلم اور ان بیٹوں سے ناروا سلوک کوئی تاریخی کہانی نہیں ہے بلکہ طائرانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو آج بھی یہ پریشانی اور ذلالت شہروگاوں کے اکثر گھروں میں پائی جاتی ہیں. سسرال میں بنت حواؑ کی خود کشی اب معمولی بات مانی جاتی ہیں. اس ظلم سے تنگ آکر کتنے حسین چہروں اور گلابی آنکھوں کے مالک ہماری بیٹیوں نے خود کو زمین بوس کیا. سسر حضرات اتنے ظالم تصور نہیں کیے جاتے ہیں جتنی شکاتیں ساسوں کےلیے ہر بہو کے ہونٹوں پر درج ہوتی ہیں اس کی وضاحت کشمیری شاعرہ حبہ خاتون نے اپنے کلام میں مکمل کی ہیں.
وارء وین ستی وار ستی چھیس نو
چار کر میون مالینو ہو
ہشہ لاینم ٹپہء سی تھپھ
سے میہ گوو مرنہ کھوتہ سخ
گویا سسرال کی زندگی پر کھٹن اور درد انگیز ہوتی ہیں. جس پر تاریخ کے صفحے بھی مکمل دلالت کرتے ہیں. چاہیے وہ حبہ خاتون کا آہ بھرا ماتم ہو یا لل دید کی درد بھری پکار. چونکہ یہ بات بھی قابل افسوس اور تشویشناک ہے کہ اس سسرال میں یہ بیٹی ایک لمبے عرصے تک مختار نہیں بنتی ہے اور اس کو صرف ہاں جی ہاں جی کے ہی دن گزارنے پڑتے ہیں. گھر میں کسی قسم کا بھی محفل منعقد ہوجائے ہر پل یہ بہو احساس کمتری کا شکار ہو کے صرف غلامی کے احساس سے دو چار ہوتی ہے جیسے کہ لل دید کے سسرال میں ایک دن سسر نے محفل کا انعقاد کرکے رشتہ داروں کو دعوت کی. اسی دن جب لل دید حسب معمول گھاٹ پر پانی لینے گئی. سہلیوں نے کہا آج تمہارے گھر میں قسم قسم کی نعمتیں تیار ہوں گی. آج تم لذید کھانے پیٹ بھر کے کھاو گے. لل دید نے حسرت بھرے لہجے میں.
"ہونڈ ماری تن مارتن کٹھ
للء نل وٹھ ژلہ نہ زنہہ
غرض آج بھی بہوں کو ستم بالائے ستم دیکھتے پڑھتے ہیں. سسرال میں اور بھی افراد خانہ اس بیٹی کے خاطر مخلص نظر نہیں آتے ہیں.بلکہ پیٹھ پیچھے غیبت اور طرح طرح کے بہتان ان کا شیوہ ہوتا ہے. اگر اس بہو کو بیٹی سمجھ کر وسیع النظری اور وسیع القلبی کا مزاج اپنایا جاتا تو ہر گھر ترقی اور خوشی کے اعلی منازلوں سے روشناس ہوتا.مگر تنگ نظری اور ناتواں ادراک کی وجہ سے ہزاروں ارمان فنا کے گھاٹ اترتے ہیں. موجودہ دور کے نکاح , نکاح کے قواعد و ضوابط کھرا نہیں اترتے ہیں کیونکہ دور جدید کی تمام شادیاں اب کاروباری شکل اختیار کرچکی ہیں. جہیز کی ذلت شادیوں کا روح مانا جاتا ہے اور اگر اس کاروبار میں کسی چیز کہ کمی محسوس ہوئی تو سسرال میں ہ لمحے بہو کو طعنے سننے پڑھتے ہیں اور سرخم کرکے اس بے چاری کو بے بسی کے موسم میں جینا پڑھتا ہے. اس جہیز کے عوض لاکھوں خوبصورت ہاتھ مہندی کی سجاوٹ کےلیے ترس رہے ہیں اور یہ سب ظلم و ستم سماج کے چہرے پر کیچڑ کے مانند عیاں اور بیاں ہے.جہیز کے برائی اور باقی فیشن کے جنون نے سماج کے وقار و ضابطے کو ثریا سے زمین پر دے مارا . لاکھوں فتنے اور لڑائیاں اس سلسلے میں مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں. بے شمار بیٹیاں عمر کی حد پار کر چکی ہیں آخر کیوں؟ سماج کے ٹھیکدارو دانشمندی کی دعوادارو اصولوں کے پاسدارو خدارا یہ بیٹیاں قب کیوں وہی دن سہہ رہے ہیں جو عرب کے لوگ نبیﷺ کے آنے سےپہلے دیکھ رہے تھے. ہر بندہ خدا ذمہ دار ہیں. شوہر حضرات بھی اکثر سسرال میں مثبت سوچ کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں بلکہ بیٹیوں کےلیے وہ بھی گراں گیر ہیں نظر آتے ہیں.وہ بھی اکثر تمیز و احترام کے ضابطے کو پیروں تلے کچلتے ہیں. ورنہ اپنی بیوی کے لیے جس محبت کی تلقین محمد ہاشمیﷺ نےکی ہیں اس کی کمی ہر گھر موجود ہیں. کھانا کھانے کے وقت گوشت کے ٹکڑے پر جہاں عائشہؓ اپنا مبارک داہنہ لگاتی تھی وہی پر محمد مدنیﷺ بھی اپنا مبارک داہنہ لگاتا تھا یہ تھی محبت کی انتہا مگر یہاں شوہر حضرات بیووں کو گالیاں دیتے دیتے ابھی فارغ نہیں ہوتے اس قوم کا آخر منزل مقصود کیا. سسرال کا تنگ دنیا اور بیٹیوں کا مختلف مظالم سے دو چار ہونا اس بات پر اپنی حساسیت کو بیدار کیجیے کیوں کہ یہ ذات کائنات کا وجود اور ابدی حقیقت ہے.
مکالمات افلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں!
جن چیزوں کو مغرب نے آزادی نسواں سے تعبیر کیا ہے وہ سراسر ذلت اور عورتوں کےلیے کھلے عام ان کے مقام و مرتبے کے پامالی کی بات ہیں. گورنمنٹ یا نجی سیکٹر میں ان کو برابر کاموقعہ دینا کوئی کمال کی بات نہیں.صرف اس کو سنجیدگی سے لینا ہے کہ ہمارے ان بیٹیوں کا احساس کس درد کا شکار ہیں. مغرب کی تقلید خون فاسد کی بنیاد ہے اور صرف اس عورت کو گھر سے لیکر سسرال تک لباس عزت و مقام سے نوازتا ہے باقی سب اس بات سے باخبر ہیں.
وجود زن سے ہے تصور کائنات میں رنگ
اسی کے سوز سے زندگی کا سوز دُروں