تحریر: اعجاز بابا
نائدکھئے سوناواری
.
میں شدید ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہوں جب بھی کسی شوہر کی جوانی میں اچانک وفات کے بعد اس کی بیوی بچوں کو دربدر ہوتے دیکھتا ہوں. تین چار دن تو سسرالی میکے والے دیکھ لیتے ہیں. اس کے بعد صرف اکیلی عورت اور اس کے چھوٹے بچے ہوتے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا. گھر سے باہر مردانہ معاشرے کے گدھ, بھیڑیے, مگرمچھ منہ کھولے اس کو نگلنے کے لیے تیار ہوتے ہیں.سونے پہ سہاگہ تب ہوتا ہے اگر عورت ان پڑھ ہو, اس کے پاس کوئی تعلیم نہ ہو اور معاشی طور پر بھی مضبوط نہ ہو. گھر کی چھت بھی اپنی نہ ہو.
اگرچہ بہت سارے موقعوں پرعورت مرد کے بغیر ہی بہادری سے حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لیتی ہے. اور کچھ نہ کچھ ہاتھ پاوں مار کر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرلیتی ہے- اس کی کافی مثالیں معاشرے میں موجود ہیں. کبھی عورت ٹیکسی ڈرائیور بن کر, کپڑے سی کر, ڈھابہ بنا کر, گھروں میں کام وغیرہ کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پا لتی ہے.
اگر زندگی کی اس آنکھ مچولی کو دیکھتے ہوئے درست وقت پر عورت کو تعلیم دی جائے, اس کو ہنر سکھایا جائے, مرد پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سکھایا جائے. سیلف ڈیفینس, سروائیول سکلز سکھائی جائیں تو سوچیں اس معاشرےکی عورت کتنی مضبوط ہوگی.
جب آپ بچے کو تیراکی کی تعلیم و تربیت دییے بغیر ہی اس سے یہ امید رکھیں گے کہ اچانک آنے والےسیلاب میں وہ اپنی جان خود بچا لے گا تو آپ فاش غلطی پر ہیں. بیٹیوں کو نصیب اچھے ہونے کی دعا دینے والے رواج کی سخت حوصلہ شکنی کریں. جیسے اپنے بیٹے کے نصیب خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں اپنی بیٹی کے نصیب بنانے کے ذمہ دار بھی آپ ہیں.
کیوں جب لڑکے کسی لڑکی کو چھیڑتے ہیں تو اسے اپنی چادر اپنے گرد سختی سے لپیٹنی پڑتی ہے اور وہ خود کو مجرم سمجھنے لگتی ہے کیوں نہ وہ چپل اتار کر وہیں ان لڑکوں کو سیدھا کر دے.
کیوں نہ بیٹے کو باہر لے کر جاتے وقت آپ اپنی بیٹی کو بھی باہر لے جائیں. کیوں نہ بیٹے بھی گھر کے سارے کام سیکھیں, بیٹیاں باہر کے بھی سارے کام سیکھیں اور اپنے اپنے وقت اور حالات کے مطابق دونوں زندگی میں آنے والے چیلینجز کا بہادری سے سامنا کریں ۔۔۔۔