ریئس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
اپنے والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد زاہد ہر گزرتے دن اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہن کی فکر میں لگا رہتا تھا ۔ بھائیوں اور بہن کو کبھی بھی زاہد نے والد کی کمی محسوس ہونے نہیں دی ۔ انکی تعلیم اور باقی ضرورتوں کو زاہد نے اپنے بچوں پر ہر وقت ترجیح دی ۔ ایک مخلص باپ کی طرح زاہد نے اپنے بھائیوں اور بہن کی کفالت کی ۔ اسکے تینوں بھائی اچھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد برسرروزگار بھی ہوئے اور بہن کو بھی اعلی تعلیم دے کر اسکی شادی بھی ایک اچھے گھرانے میں کرائی ۔۔۔۔۔۔۔
ہمسائیوں ، رشتےداروں اور دوستوں میں زاہد کی مثال دی جاتی تھی کہ کس طرح باپ کے انتقال کے بعد زاہد نے بھائیوں اور بہن کی پرورش ایک رفیق باپ کی طرح کی ۔ زاہد نے بھائیوں کو الگ گھر بسانے میں بھی اپنا بھر پور تعاون پیش رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اب زاہد سے زیادہ اسکے بھائی ہی ایک شاہانہ زندگی گزرتے ہیں کیونکہ انکے پاس آمدنی کے ٹھوس ذرائع موجود ہیں ۔
ایک دن زاہد کی بیٹی بہت بیمار ہوئی ۔ درد کی شدت برداشت سے باہر تھی۔ اسکو پرائیویٹ ہسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا کیونکہ گورنمنٹ ہسپتال میں آپریشن کے لئے بہت لمبا تاریخ ملا تھا ۔اسلئے زاہد نے شوقی بیٹی کی جان بچانے کی خاطر پرائیویٹ ہسپتال میں ہی اسکا آپریشن مناسب سمجھا۔ جب ہسپتال انتظامیہ سے بات ہوئی ، تو دو پوانٹ خون اور چالیس ہزار روپے زاہد کو فورّا جمع کرنے کے لئے کہا گیا ۔ نہ زاہد کا بلڈ گروپ بیٹی سے ملتا تھا اور نہ اسکے پاس اتنی رقم موجود تھی ۔۔۔۔
زاہد اور اسکی بیوی نرگس بڑی پریشانی میں مبتلا ہوئے ۔ نرگس نے اپنے بھائیوں سے خون اور رقم مانگنے کی تجویز دی لیکن زاہد نے اپنے ہی بھائیوں کو فون ملانا بہتر سمجھا۔۔۔۔۔۔۔
زاہد ۔۔۔۔۔۔ ہیلو رشید ! شوقی بیٹی ہسپتال میں ایڈمٹ ہے اسکو خون کی اشد ضرورت ہے ۔ ساتھ میں بہت رقم بھی درکار ہے۔ جلدی کرنا ، نزیر ، رشید اور سجاد کو بھی مطلع کرنا تاکہ میری بیٹی کی جان کسی طریقے سے بچ جائے ۔۔۔۔۔
رشید ۔۔۔۔۔ ہاں بھائی جان ۔ میں ابھی ان دونوں بھائیوں کے پاس جارہا ہوں ۔ وہاں پہنچ کر میں یہاں سے ہی کال کروں گا ۔
رشید فورّا دونوں بھائیوں کے پاس جاتا ہے اور زاہد کی بے بسی کی کہانی سناتا ہے ۔زاہد یہ بات ابھی دہراتا ہی تھا ، دونوں بھائیوں نے غصے میں واپس جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اب ہمیں عمر بھر اسکا گھر چلانا ہے ۔ ہمیں اپنا اہل و عیال نہیں ہے ۔ آخر ہمیں بڑے اسکولوں میں بچے درج ہیں ۔ اسکو خیال ہی نہیں ہے ہمارے خرچات کا۔ خود کوئی کام ہی نہیں کرتا ہے ۔ صرف ہمارے تنخواہوں پر اسکی نظر رہتی ہے ۔۔۔۔۔
زاہد پھر سے کئی مرتبہ تینوں بھائیوں کو فون ملانے کی کوشش کرتا ہے ، ہر بار اسکو یہی اواز کانوں میں سنائی دیتی ہے ۔ ” جس نمبر سے آپ سمپرک کرنا چاہتے ہیں وہ سوئچ آف ہیں ”
کافی انتظار کے بعد جب زاہد کو اپنے بھائیوں سے کوئی امید نہ رہی تو وہ ہسپتال سے باہر کسی جان پہنچان شخص کی تلاش میں نکلا تاکہ اسکو خون اور رقم حاصل ہوجائے اور بیٹی کی جان بچ جائے ۔
زاہد اپنے ایک دوست سے بات ہی کرتا تھا تو اسی وارڑ کے ایک مریض کے تیماردار نے زاہد کو یہ خبر سناتے ہوئے اور بے حال کردیا کہ شوقی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے ۔ دونوں میاں بیوی کے لئے یہ قیامت سے کم نہ گزرا ۔ زاہد اور اسکی بیوی نرگس کو ایسی بے وفائی کی امید نہ تھی کیونکہ زاہد نے اپنا سب کچھ بھائیوں اور بہن کی خاطر قربان کردیا تھا ۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔