اعجاز بابا
یونان کی حکومت نے سقراط پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ نوجوانوں میں انقلابی جذبہ پیدا کرتا تھا اور مروجہ نظام حکومت کیخلا ف باغیانہ تقریریں کرتا اور تحریریں چھاپتا تھا۔ سقراط پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ ریاست کے معروف خداﺅں کو ماننے سے انکار کرتا تھا۔ سادہ لفظوں میں سقراط اپنے زمانے کے استحصالی اور روایتی نظام کیخلاف تھا اور نوجوانوں کے تعاون سے مروجہ نظام کو تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ یونان کی حکومت نے سقراط کے خلاف مقدمہ چلانے کیلئے جیوری کا انتخاب کیا جو 501ارکان پر مشتمل تھی۔ سقراط کو کھلی عدالت میں پیش کیا گیا تاکہ وہ اپنا دفاعی بیان ریکارڈ کراسکے۔ سقراط کا دفاعی بیان تاریخ کے صفحات پر موجود ہے جو ہزاروں سال گزرنے کے بعد آج بھی روح پرور اور سبق آموز ہے۔
سقراط کا عدالتی بیان طویل ہے جس کو ایک کالم میں سموناممکن نہیں اس لیے سقراط کے بیان کے چند اقتباسات نذر قارئین ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سقراط کا مقدمہ کیا تھا اس نے اپنا دفاع کیسے کیا اور زہر کا پیالہ پینے کا فیصلہ کیوں کیا۔ یونان میں عام طور پر رواج یہ تھا کہ ملزمان جیوری کے سامنے بیان دیتے ہوئے جذباتی اور معذرت خواہانہ انداز اختیار کرتے تھے تاکہ سزا سے بچ سکیں مگر سقراط نے اپنا بیان سادہ اور دو ٹوک الفاظ میں ریکارڈ کرایا جس میں کوئی لغزش نہ تھی۔ سقراط نے اپنے بیان کے ابتدائیہ میں کہا ”جیوری میں شامل کوئی شخص مجھے یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا طرز عمل باعث شرم ہے جس کے نتیجے میں آج مجھے موت کا سامنا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ اگر تم سب یہ سمجھتے ہو کہ کسی شخص میں اگر سچ بولنے کی طاقت ہے اسے زندگی اور موت کا حساب رکھنا چاہیئے تو میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ سچے انقلابی کو موت سے خوف زدہ ہونے کی بجائے یہ فکر کرنی چاہیئے کہ اس کا موقف درست ہے یا غلط ہے“۔
سقراط نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا ”میں یہ جانتا ہوں کہ اللہ کی اور اپنے سے بہتر لوگوں کی نافرمانی کرنا بے شرمی کی بات ہے اس لیے میں برائیوں میں مبتلا ہونے کی بجائے موت کو ترجیح دوں گا عین ممکن ہے کہ موت میرے لیے بڑی نعمت ہو۔” میں آ پکی اطاعت کے مقابلے میں اللہ کی اطاعت کروں گا۔ جب تک سانس میں سانس ہے ، جسم میں طاقت ہے، میں کبھی بھی اس دعوت سے باز نہیں آﺅں گا۔ میں دعوت دیتا رہوں گا، ترغیب بھی دلاتا رہوں گا۔ آپ میں سے ہر اُس شخص سے ، جس سے جب بھی ملاقات ہوگی، میں یہ کہوں گا کہ میرے عزیز! تم ایتھنز کے رہنے والے ہو، اس عظیم شہر کے شہری ہو جو اپنی قوت و دانش میں مشہور ہے۔ تم ہر ممکن کوشش کرتے ہو کہ دولت، شہرت، مقام و مرتبہ میں خوب سے خوب تر ہوجاﺅ۔ کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ سچائی، دانش اور اپنے نفس کیلئے بھی کوشش اور محنت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ بھی خوب سے خوب تر ہو۔ میرا کام بس یہی ہے کہ آپ لوگوں کو راغب کروں، چاہے بوڑھے ہوں یا جوان کہ اپنے جسم اور اپنے مال کو اپنی اولین ترجیح نہ ٹھہرائیں بلکہ روح و نفس کی پاکیزگی کو پہلا مقام دیں۔
سقراط نے اپنے بیان میں رسموں اور رواجوں کی مذمت کرتے ہوئے پروقار انداز میں کہا۔”اب شاید آپ میں سے کوئی صاحب اس بات پر دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہے ہوں جب انہیں یہ یاد آئے کہ کبھی وہ بھی ایسے ہی کسی مقدمے میں جو اس سے کہیں کم سنگین تھا، مبتلائے مصیبت تھے۔ اُس وقت انہوں نے ججوں کے دل کو نرم کرنے کیلئے کتنی التجائیں کی تھیں، کتنے آنسو بہائے تھے، اپنے بچوں اور رشتہ داروں کو اُنکے سامنے پھرایا تھا اور انکے ساتھ انکے بےشمار دوست بھی تھے لیکن میں جیسا کہ ظاہر ہورہا ہے کہ ایسا نہیں کررہا ہوں اور وہ بھی ایسے حالات میں جبکہ نہایت سنگین خطرے سے دوچار ہوں۔ میرے اس طرزِ عمل کا ممکن ہے کوئی صاحب برا منائیں، اسی باعث اُن کا دل میرے لیے سخت ہوجائے اور وہ غصے میں میرے خلاف ووٹ دے ڈالیں۔ اگر آپ میں سے کوئی ایسا محسوس کرتا ہے، جس کی مجھے توقع تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی ایسا محسوس کرتا ہے تو میں نہایت ادب سے اُس سے کہوں گا کہ جناب والا! میرے بھی عزیز رشتہ دار ہیں کیونکہ بقول ہومر میں نہ پتھر سے پیدا ہوا ہوں نہ ہی لکڑی سے، انسان کی اولاد ہوں، میرے عزیز و اقارب ہیں اور انکے علاوہ میرے تین بیٹے ہیں۔
ایک تو جوان ہوچکا ہے جبکہ دوا بھی چھوٹے ہیں۔ لیکن میں ان میں سے کسی کو بھی یہاں اس غرض سے نہیں پھراﺅں گا کہ آپ حضرات میری برات میں ووٹ ڈال دیں۔میں ایسا کیوں نہیں کررہا ہوں؟ اس لیے نہیں کہ میں خود سر اور مغرور ہوں، نہ اس لیے کہ آپ کو کمتر و حقیر سمجھتا ہوں۔ میں بہادری سے موت کا سامنا کرتا ہوں یا نہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مجھے آپ کی، اپنی اور ریاست کی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ خلافِ وقار محسوس ہوتا ہے کہ میں ایسا کوئی کام کروں اور وہ بھی اس عمر میں اور اس شہرت کے ساتھ، خواہ اچھی ہے یا بری ہے“۔
سقراط جب اپنا موقف بیان کرچکا تو جیوری نے مقدمے کا فیصلہ رائے شماری سے کیا۔ سقراط کے حق میں 220ارکان نے رائے دی جبکہ 281ارکان نے سقراط کیلئے سزائے موت تجویز کی۔ سزا کے بعد عدالتی ضوابط کے مطابق سقراط کو موقع دیا گیا کہ وہ خود اپنی سزا تجویز کرے۔ سقراط نے کہا ”اب حضرات! میں اپنے لیے کیا سزا تجویز کروں؟ اتنا تو واضح ہے کہ جو سزا بھی تجویز کروں وہ بہر حال مناسب ہونی چاہیئے۔ کین میری سزا کیا ہو؟ کونسی سزا، کتنا جرمانہ مناسب رہے گا؟ کیونکہ میں زندگی بھر آرام سے نہیں بیٹھا، کیونکہ میں نے اُن چیزوں پر جن پر لوگ مرتے ہیں، مال بنانے، گھر اور خاندان سنوارنے، فوجی عہدے، عوامی خطابت اور ریاستی عہدوں، زمینوں اور جماعتوں کو ذراہ برابر اہمیت نہیں دی کیونکہ میں جانتا تھا کہ ان میں مبتلا ہوکر گناہ سے آلودہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکوں گا۔ میں وہاں نہیں گیا جہاں جاکر میں آپ کیلئے اور اپنے لیے کوئی بھلائی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن ہر اُس جگہ پر گیا جہاں اُمید تھی کہ آپ کو خیر کی نعمت سے بہرہ ور کرسکوں گا۔
میں نے کوشش کی کہ آپ میں سے ہر ایک کو راغب کروں کہ وہ اپنے نفس کی نگہداشت اپنے دنیاوی معاملات سے پہلے کرے اور اس حد تک کرے کہ نیکی و دانائی میں درجہ کمال کو جاپہنچے۔کیا میں اپنے لیے جیل کی سزا تجویز کروں؟ جیل کے اُن گیارہ افسران کا غلام بن کرزندگی بھر جیل میں رہوں؟ آخر کیوں؟ پھر کیا یہ تجویز کروں کہ جرمانہ ادا کروں گا اور جب تک جرمانہ ادا نہ کرسکوں گا جیل میں قید رہوں گا۔ لیکن میرے لیے یہ تجویز بھی زندگی بھر کی جیل سے کم نہیں کیونکہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں جس سے جرمانے کی رقم ادا کرسکوں۔ تب پھر کیا ملک بدری کو تجویز کروں؟ اس سزا پر شاید آپ مان بھی جائیں اور اگر مجھے زندگی پیاری ہے تو یہی سزا اپنے لیے تجویز کروں۔ لیکن کیا میں ایسا ہی گیا گزرا شخص ہوں؟ آپ جو میرے ہم وطن ہیں، میرا کام اور میری باتیں برداشت نہیں کرسکے۔ یہ چیزیں آپ کیلئے اس قدر تکلیف دہ اور کڑوی تھیں کہ آپ مجھے ملک بدر کررہے ہیں تو کیا دوسرے ان کو آسانی سے برداشت کرلیں گے“۔
سقراط نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ”آپ لوگوں نے یہ سمجھ کر یہ کام کیا ہے کہ مستقبل میں اس بارے میں آپ سے کوئی پوچھے گا نہیں لیکن میں آپ سے کہتا ہوں کہ صورتِحال اسکے بالکل برعکس ہو گی۔ ایک نہیں کئی ہونگے جو آپ کو ملزم ٹھہرائیں گے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو سزائے موت دے دینے سے آپ کسی کو اپنی غلط کار زندگی کی طرف بڑھنے سے روک سکتے ہیں تو انتہائی غلط ہے کیونکہ یہ راہِ فرار نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی مناسب لیکن دوسرا راستہ آسان بھی ہے اور قابلِ عزت بھی کہ آپ دوسروں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنے کی بجائے اپنی زندگیوں کو نیکیوں سے منور کرنے کی کوشش کریں۔ یہ میری پیشین گوئی اُن لوگوں کیلئے ہے جنہوں نے مجھے مجرم ٹھہرایا ہے اور اب ان سے میرا معاملہ ختم ہوا۔ اب جانے کا وقت آگیا ہے۔ ہم اپنے اپنے راستوں کی طرف جاتے ہیں۔ میں مرنے کو اور آپ زندہ رہنے کو۔ کون سا راستہ بہتر ہے اللہ ہی کو معلوم ہے“۔
سقراط کے دوستوں نے اسے جیل سے فرار ہونے کا مشورہ دیا جو اس کیلئے ممکن تھا مگر سقراط نے مفرور ہونے کی بجائے زہر کا پیالہ پی لیا اور انسانی تاریخ میں امر ہوگیا۔۔۔