تُم بن جی نہیں سکتے، وعدہ دیا ہوا نبھانا تھا
یہی سچ اپنا بتانا تھا ، موت تو اِک بہا نہ تھا
عاشق تو تیرے سب ہی تھے میں تو دیوانا تھا
تیری نظر میں آنا تھا، موت تو اِک بہا نہ تھا
سُنا ہے عاقل وصیتیں اب پوری کرتے ہیں
تُجھ کو گلے لگانا تھا، موت تو اِک بہانہ تھا
تیرے ہونٹوں کی حرکت سے جانے ارادے
یہی رتبئے وفا آزمانا تھا، موت تو اِک بہانہ تھا
تیری ابتداء تھی شمع سی کئی پروانے جلارہىں
تیری انتہا میں سمانا تھا، موت تو اِک بہانہ تھا
فاحد احمد انتہا
واگہامہ بجبہاڑہ