ثاقب پوشپوری
ضلع ہیڈ کوارٹر سے ١٣ کلو میٹر کی دوری پر واقع ایک بہت بڑا گاوں آباد ہے جس کا نام ترہگام ہے۔جس کو تحصیل کا درجہ بھی دیا گیا ہے۔یہ تحصیل ہر لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔یہ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی تہذیب و تمدن،بھائی چارے،مذہب ،اخلاق و مروت،اعلئ تعلیم وغیرہ کے لحاظ سے مشہور ہے۔اس سر زمین نے بہت سے ڈاکٹروں،فلاسفروں،اساتذہ،اسکالروں،وطن کے جانثاروں،قوم کے معماروں یہاں تک کہ سائنس دانوں کو بھی جنم دیا ہے۔تعلیمی لحاظ سے اس کو اگر کپوارہ ضلع کا تاج کہا جائے تو بجا ہوگا۔اس پر میرے استاد محترم شاہ دل شمس صاحب کا شعر یاد آیا؎
شہر ،خستہ یہ کیا ہوا تجھ کو
تیرے معمار مر گئے ہیں کیا
1856ء میں تحصیل ترہگام میں مہاراجہ پرتاب سنگھ جی مہاراج نے ایک ہسپتال کی سنگ بنیاد رکھی۔یہ ہسپتال اپنی نوعیت کا منفرد ہسپتال تھا جہاں سرجری کی جاتی تھی۔ضلع کپوارہ کا پہلا ہسپتال یہ ہی تھا۔اس وقت جو سہولت ہسپتال میں ہونی چاہیے تھیں وہ ترہگام ہسپتال میں میسر ہوا کرتی تھیں۔دور دراز علاقوں سے مریض یہاں آکر صحت یاب ہوتے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس کے بعد جو بھی جموں و کشمیر میں حکومت آئی اس نے اس ہسپتال کو نظر انداز کیا۔یہ افسوس کا مقام ہے کہ یہ ہسپتال رفتہ رفتہ عدم توجہی کا شکار بنتا گیا۔آج اس ہسپتال میں سرجری تو دور کی بات ہے ایکسرے پلانٹ،اور کئ مشینوں کا نام و نشان نہیں۔علاقہ کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اقتدار میں آنے والی ہر سرکار کے سامنے ہاتھ جوڑا کہ اس شفاخانے کو سب ڈسٹرک ہسپتال کا درجہ دیا جائے۔اس شفاخانے میں پھر سے سرجری کی جائے اور ہر قسم کی سہولت میسر رکھیں۔لیکن ہمارے ساتھ ہر حکومت نے جھوٹے وعدے کیے۔تحصیل ترہگام کے ذی شعور اور قابل قدر لوگوں سے جب قاری نے بات کی تو انہوں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
کہ جموں وکشمیر میں جو بھی حکومت اقتدار میں آئی انہوں نے ہم سے جھوٹے دعوے کیے۔سبز باغ دکھائے۔آج پورا علاقہ بہت مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔جب تک مریض کو کپوارہ ضلع ہسپتال اور وہاں سے سری نگر ہسپتال منتقل کرتے ہیں۔وہ راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔کئی جانیں اس وجہ سے چلی گئیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ کچھ عمارتیں ہسپتال کو بنائی گئ ہیں۔کئی بیڈ دئے گئے۔مگر ہمیں ان بیڈوں پر رہ کر کیا کرنا ہے جب مریض کو راحت ہی نہیں ملی۔ہسپتال کو بہت سی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے۔ہسپتال پانی کا معقول انتظام نہیں ہے۔جس سے بیت الخلاء میں مریض کا جانا بہت مشکل ہے۔کیونکہ وہاں کوئی نئی بیماری پھوٹ پڑ سکتی ہے۔
تحصیل ترہگام کے ذی شعور اور قابل قدر لوگ جموں و کشمیر کے گورنر انتظامیہ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہیں۔لوگ اس ہسپتال کا درجہ بڑھانے کی مانگ کررہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس شفاخانے کو سب ڈسٹرک ہسپتال کا درجہ دیا جائے،جدید قسم کی سہولت یہاں دستیاب رکھی جائے۔جدید قسم ۔ہسپتال میں ہر مرض کا ڈاکٹر دستیاب ہونا چاہیے۔لوگ بہت مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔جدید قسم کی سہولت سے مریض کو راحت پوہنچ سکتی ہے۔
مگر ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ یہاں کے کچھ ملازمین کئی اور جگہ تعینات ہیں لیکن تنخواہ یہاں اس ہسپتال کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یہاں ڈاکٹروں سے لے کر درجہ چہارم اسامیاں بھی بہت قلیل ہیں جو ہسپتال سے منسلک ہیں۔لوگ طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلہ ہیں۔
ہم جموں و کشمیر کے گورنر صاحب سے مودبانہ اپیل کرتے ہیں کہ ہسپتال کو پرائمری ہیلتھ سنٹر سے بڑھ کر سب ڈسٹرک ہسپتال کا درجہ دیا جائے۔کیونکہ یہ بہت وسیع اور بڑا علاقہ ہے۔اس ہسپتال کے اردگرد تقریباً بیس سے زائد گاوں آباد ہیں۔یہ علاقہ بہت بڑی آبادی پر مشتمل ہے۔اس کی آبادی تقریباً 1,20000 سے تجاوز کی گئ ہیں۔مگر افسوس مقامی لیڈروں سے لیکر ان کے سربراہان نے بس اپنی من مانیاں کیں،ہم سے بددیانتی اور جھوٹے وعدے کیے۔علاقے کے لوگ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔یہاں تک کہ ہر دور میں
عوامی حکومت نے انہیں بہت مایوس کیا ہے۔جھوٹے وعدے کر کے ہمیں تسلی دی گئی۔ہم اپنی جائز مانگ لے کر آپ کی خدمت میں آئے ہیں۔ہمیں امید ہے کہ آپ ہماری مانگ کو پورا کر سکو گے۔۔
آخر پر ایک کشمیر شعر؎
پریتھ محکمسے ژامتی ژور،یتہ انسانن کھولُکھ غیور
کانہہ چھنہ یتہ اتھ ہیوان سام،واران گیہ یتہ شہر و گام
ثاقب پوشپوری