تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری
جمعہ ”جمع“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں جمع ہونا؛ کیونکہ مسلمان اِس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور امت ِمسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں ، اِس لیے اِس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔یوم الجمعة اہل اسلام کے لئے عید کی حیثیت رکھتا ہے۔ جمعہ کے دن اہل ایمان کا عظیم مجموعہ وحدت اور اتحاد کی گواہی دیتا ہے۔ کائنات کے عظیم افعال و واقعات اسی دن رونما ہوۓ۔یوم جمعہ فضائل و مناکب کا مرکب دن ہے۔جن کا ذکر مختصراً آرہا ہے۔
فضائل و اعمال جمعہ
(۱) سردار ایام—
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ کا دن سارے دنوں میں سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔ ”
(۲) عظیم واقعات کا دن —
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "اس دن کی پانچ باتیں خاص ہیں، اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ اِسی دن اُن کو زمین پر اتارا۔ اِس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں؛ بشرطیکہ کسی حرام چیز کا سوال نہ کرے۔ اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرب فرشتے ، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ، سمندر سب جمعہ کے دن سے گھبراتے ہیں کہ کہیں قیامت قائم نہ ہوجائے؛ اس لیے کہ قیامت، جمعہ کے دن ہی آئے گی۔
(۳) جہنم سے دوری—
بعض سلف سے یہ قول منقول ہے کہ، "جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے؛ مگر جمعہ کے دن اس کی عظمت اور خاص اہمیت وفضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی” ۔ (زاد المعاد ۱ / ۳۸۷)
(۴) یوم استجابت—
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "اس میں ایک گھڑی ایسی ہے، جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے ".(بخاری)
(۵) یوم بخشش—
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "پانچوں نمازیں، جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے گناہوں کے لیے کفارہ ہیں؛ جب کہ اِن اعمال کو کرنے والا بڑے گناہوں سے بچے”.(مسلم)
(۶) یوم طہارت—
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، اگر خوشبو ہو تو اسے بھی استعمال کرتا ہے، اچھے کپڑے پہنتا ہے، اس کے بعدمسجد جاتا ہے ، پھر مسجد آکر اگر موقع ہو تو نفل نماز پڑھ لیتا ہے اور کسی کو تکلیف نہیں پہونچاتا۔ پھر جب امام خطبہ دینے کے لیے آتا ہے، اس وقت سے نماز ہونے تک خاموش رہتا ہے یعنی کوئی بات چیت نہیں کرتا تو یہ اعمال اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو جاتے ہیں”.(مسند احمد)
(۷) یوم فوزالکبیر—
حضرت یزید بن ابی مریم فرماتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے پیدل جارہا تھا کہ حضرت عبایہ بن رافع مجھے مل گئے اور فرمانے لگے تمہیں خوشخبری ہو کہ تمہارے یہ قدم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ہیں۔ میں نے ابو عبس کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا،”جس کے قدم اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہوئے تو وہ قدم جہنم کی آگ پر حرام ہے”.(جامع ترمذی)
(۸) یوم نور —
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جو شخص سورہٴ کہف کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا، آئندہ جمعہ تک اس کے لیے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی”.(مستدرک حاکم) سیدنا براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورہٴ کہف پڑھی، گھر میں ایک جانور تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو انھیں ایک بادل نظر آیا جس نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا۔ صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی اکرم ﷺ سے کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا، "سورہٴ کہف پڑھا کرو۔ قرآن کریم پڑھتے وقت سکینت نازل ہوتی ہے”.(بخاری)
(۹) یوم محبت نبوی ﷺ—
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔ اِس دن کثرت سے دُرود پڑھاکرو؛کیونکہ تمہارا دُرود پڑھنا مجھے پہونچایا جاتا ہے۔ ” (صحیح ابن حبان)
(۱۰) یوم عبادت—
فرمان ربانی ہے کہ، "اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے، یعنی نماز کی اذان ہوجائے، تو اللہ کی یاد کے لیے جلدی کرو۔ اور خرید وفروخت چھوڑدو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔” (سورہ جمعہ)
(۱۱) یوم برکت —
فرمان ربانی ہے کہ، "اور جب نماز ہوجائے تو زمین میں پھیل جاوٴ اور اللہ کا فضل تلاش کرو یعنی رزق حلال تلاش کرو۔ اور اللہ کو بہت یاد کرو؛ تاکہ تم کامیاب ہوجاو”.(سورہ جمعہ)
(۱۲) یوم نجات—
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں انتقال کرجائے، اللہ تعالیٰ اُس کو قبر کے فتنہ سے محفوظ فرمادیتے ہیں”.(مسند احمد)
وعید نبوی ﷺ
سیدنا عبداللہ بن عمر اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منبر کی لکڑی (یعنی اس کی سیڑھیوں) پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ نمازِ جمعہ کو چھوڑنے سے باز رہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافلوں میں شمار ہونے لگیں گے‘‘۔(مشکاة المصابيح) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جو آدمی بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ چھوڑ دیتا ہے وہ ایسی کتاب میں منافق لکھا جاتا ہے جو نہ کبھی مٹائی جاتی ہے اور نہ تبدیل کی جاتی ہے”.(مشکاۃ المصابیح)
ائمہ اور واعظین کی ذمہ داریاں
(۱) نمازوں میں مخصوص تلاوت—
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كے روز نماز فجر كى پہلى ركعت ميں سورۃ السجدۃ ( الم تنزيل ) اور دوسرى ميں سورۃ الدھر ( ھل اتى على الانسان حين الدھر ) كى قرآت فرمايا كرتے تھے۔
(۲) خطبہ مختصر مگر جامع ہو —
مبلغین پر لازم ہے کہ وہ قرآن و سنت کے حدود میں رہ کر مختصر لیکن بامعنی خطبہ دیں جس سے سماج میں اصلاح ممکن ہو جائے۔بلاوجہ خطبہ جمعہ کو طویل نہ کریں۔عصر حاضر کے مسائل کا بیان علمی انداز میں کیا جائے۔وقت نہایت ہی قیمتی ہے لہذا اپنا اور سامعین کے وقت کی قدر کرتے ہوئے مدلل بیان کیا جائے۔
(۳) مرثیہ خوانی سے اجتناب—
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن بعض خطباء اناشیدِ کو پڑھتے ہیں یہ عمل بدعت کے قریب ہے۔ یاد رہے کہ نعت پڑھنا عبادت ہے، نبی کریم ﷺ کی تعریف کرنا عبادت ہے، اگر ہم اپنے سانسوں کے برابر بھی نبی کریم ﷺ پر درود پڑھیں اور نعت پڑھیں تو حق ادا نہیں ہوگا۔لیکن ہر عمل کا ایک وقت ہوتا ہے، اگر آپ نبی ﷺ سے محبت کرتے ہیں تو خطبہ جمعہ بھی اسی طرح دیں جس طرح نبی کریم ﷺ نے دیا اور ہمیں سکھلایا یہی محبت کی عین دلیل ہے۔
(۴) ترنم سے کلی اجتناب—
یہ بات متفق علیہ مسئلہ ہے کہ خطیب کو قرآن و سنت کے دائرے میں رہ کر خطبہ دینا ہے، کیونکہ خطبہ فقط فن میں جس میں آپ فنکاری دکھا دیں بلکہ عبادت ہے اور عبادات توقیفی ہوتی ہیں۔ خطیب کے سامنے تعلیم یافتہ طبقہ بیٹھا ہوا ہوتا ہے، ان کے سامنے کس طرح ترنم سے خطبہ پڑھو گے۔ یہ ایک فتنہ ہے۰ جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ طبقہ دین سے متنفر ہورہا ہے۔ اپنی شہرت کے خاطر ملت اسلامیہ کو فتنوں میں گرفتار نہ کرو۔ ملت کو اناشید کی ضرورت نہیں بلکہ علم و عمل کی طلب ہے۔
(۵) تقوی کی تلقین—-
خطباء پر لازم ہے کہ ملت اسلامیہ کو تقوی کی تلقین کریں۔ ملت ڈوب چکی ہے خرافات میں، فحاشی و عریانی میں، شرک و بدعات میں، منشیات کی ذلالت میں، سودخوری و معاشی بحران میں، ملت کو ایک قاعد کی ضرورت ہے، ایک رہبر کی ضرورت ہے۔ ملت کو تقوی کا حقیقی مفہوم سمجھا کر پٹری پر لانے کی کوشش کریں۔
(۶) طلباء پر توجہ دیں—
چونکہ lockdown کی وجہ سے طلباء گزشتہ دو سالوں سے گھروں میں قید ہے۔ online تعلیم کا دور دورہ ہے۔ اب خطباء پر واجب ہے کہ والدین کو اس کے مثبت اور منفی پہلو سے آگاہ کیا جائے۔ بچوں کے ابھرتے ہوئے مسائل پر روشنی ڈالیں۔
(۷) مسائل خواتین پر لب کشائی—
چونکہ وادی کے مسلمان سابقہ تین سالوں سے سیاسی، فضائی، زمینی، اقتصادی، سماجی مسائل سے جوج رہے ہیں۔ گھریلو سطح پر جنسی زیادتیاں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ خواتین پر ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ چکی ہیں،اور تشدد بھی۔ ملت کے افراد کو ان چیزوں کی طرف رہنمائی کی جاۓ۔
(۸) نوجوان ملت کی طرف التفات کیا جائے—
ملت کے نوجوان لاک ڈاؤن کی وجہ سے مختلف پریشانیوں میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ ذہنی امراض، روحانی امراض کے ساتھ ساتھ ملت کے نوجوان تنہائی کے گناہوں میں بھی مبتلا ہوچکے ہیں۔ ان مسائل کا حل ملت کے سامنے رکھیں۔
(۹) سیاسی مسائل کی طرف التفات—
وادی کشمیر لمبے عرصے سے سیاسی اتار چڑھاؤ کی شکار رہی ہے۔ اب ایسی صورتحال میں ملت کو کیسے command کرنا ہے، اس کا حل بھی مبلغین، علماء کو پیش کرنا ہے۔ بالخصوص social media کے استعمال کی طرف بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔اس کے لئے اصول و ضوابط بھی سامنے رکھیں۔
(۱۰) عالمی سیاسی حالات پر نظر —
قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ خطباء پر واجب ہے کہ عصر حاضر کے جدید مسائل پر نظر رکھیں۔عرب و عجم کے حالات پر باریک بینی سے نظر رکھیں۔ اپنے خطاب کو جذبات سے پاک رکھا جائے، ہوش سے کام لیں، جوش میں نہ آجائیں۔ عدل و انصاف پر اپنی آراء سامنے رکھیں۔
(۱۱) علم و عمل میں تضاد نہ ہو —
خطباء پر واجب ہے کہ اپنی صورت و سیرت نبوی ﷺ سیرت کے مطابق مزین کریں۔ اپنے اخلاق کو، اپنی خلوت کو، اپنی جلوت کو دین کے رنگ میں ڈال دیں۔ سخت مزاجی، غرور، تکبر سے اپنے قلوب کو پاک کر لیں۔ آپ ملت کے طبیب ہو، طبیب بن کے رہیں۔
When there is no enemy within, the enemies outside cannot hurt you.
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ملت کو اتحاد و اتفاق سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین۔